ميرے پاس حج كے ليے كافى مال ہے، ليكن مجھے اس رقم كى ضرورت بھى ہے تو كيا ميں حج مؤخر كر سكتا ہوں ؟
كيا اگر مال كى ضرورت ہو تو حج ميں تاخير كى جا سكتى ہے؟
سوال: 11534
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
حج فرض ہونے كے ليے استطاعت ( قدرت ) شرط ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج فرض ہے جو بھى اس تك جانے كى استطاعت ركھتا ہو آل عمران ( 97 ).
اور يہ استطاعت مالى اور استطاعت بدنى دونوں كو شامل ہے.
بدنى استطاعت كا معنى يہ ہے كہ: انسان صحيح البدن ہو اور بيت اللہ تك سفر كى مشقت اور حج كى مشقت برداشت كر سكتا ہو.
اور مالى استطاعت كا معنى يہ ہے كہ: انسان كے پاس اتنى رقم ہو جس سے وہ بيت اللہ تك جانے اور واپس آنے اور وہاں خرچ اور اپنے پيچھے بيوى بچوں كا خرچ بھى كر سكتا ہو.
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
حج كے استطاعت كے متعلق گزارش يہ ہے كہ انسان صحيح البدن ہو اور بيت اللہ تك براستہ روڈ يا ہوائى جہاز يا جانور يا كرايہ كے ذريعہ جانے كے اخراجات كا مالك ہو، اور اس كے پاس آنے جانے كے خرچ كے علاوہ اپنى كفالت ميں موجود افراد جن كا خرچ اس پر واجب ہوتا ہے، حج سے واپس آنے تك كے اخراجات بھى ہوں، اور عورت كے ساتھ اس كا محرم يا خاوند كا ہو حتى كہ چاہے حج يا عمرہ كا سفر ہو. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 30 ).
اور اس ميں شرط يہ ہے كہ بيت اللہ تك جانے كے اخراجات اس كى اصل ضروريات اور شرعى اخراجات اور قرض كى ادائيگى سے زائد ہوں.
قرض سے مراد حقوق اللہ مثلا كفارہ وغيرہ اور حقوق العباد ہيں.
اس ليے جس شخص پر بھى قرض ہے اور اس كے پاس حج اور قرض كى ادائيگى دونوں كے ليے مال پورا نہ ہوتا ہو وہ پہلے قرض ادا كرے، اور اس شخص پر حج فرض نہيں ہوتا.
اور بعض لوگ يہ خيال كرتے ہيں كہ اس ميں قرض خواہ يعنى جس سے قرض ليا گيا ہو كى اجازت نہ دينا علت ہے، اور جب وہ اجازت دے تو پھر حج كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
يہ گمان اور خيال غلط ہے اور اس كى كوئى اصل نہيں، بلكہ اس ميں علت تو انشغال ذمہ ہے. اھـ بتصرف.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 7 / 30 ).
اور اگر قرض دينے والا شخص مقروض كو حج كى اجازت بھى دے دے تو پھر بھى قرض مقروض كے ذمہ باقى ہے، اور اس اجازت كى بنا پر وہ قرض سے برى الذمہ تو نہيں ہو جاتا، اسى ليے مقروض كو كہا جائيگا كہ:
پہلے اپنا قرض ادا كرو اور اگر حج كے ليے رقم باقى بچ جائے تو حج كرو وگرنہ آپ پر حج فرض نہيں ہے.
اور جب مقروض شخص جسے قرض نے حج كرنے سے روك ركھا فوت ہو جائے تو وہ مكمل اسلام كے ساتھ فوت ہوا ہے اس نے كوئى كمى كو تاہى نہيں كى، كيونكہ اس پر تو حج فرض ہى نہيں ہوا تھا، جس طرح فقر شخص پر زكاۃ فرض نہيں ہوتى اسى طرح حج بھى.
ليكن اگر اس نے قرض كى ادائيگى سے قبل حج كر ليا اور قرض ادا كرنے سے قبل فوت ہو گيا تو وہ خطرے ميں ہے، كيونكہ شہيد كو بھى قرض كے علاوہ ہر چيز معاف ہو جاتى ليكن قرض معاف نہيں ہوتا تو پھر كسى دوسرے شخص كا كيا حال ہو گا ؟!
اور شرعى نفقات سے مراد وہ اخراجات اور نفقات ہيں جو شريعت نے مقرر كيے ہيں، مثلا اپنا اور اپنے اہل و عيال كا بغير اسراف و فضول خرچى كے صرف كرنا، اور اگر وہ متوسط حال ہے اور مالدارى ظاہر كرنے كے ليے كوئى قيمتى گاڑى خريد لے تا كہ مالداروں كا مقابلہ كرسكے اور اس كے پاس حج كرنے كے ليے مال نہ ہو تو وہ يہ گاڑى فروخت كر كے اس كى قيمت سے حج كى ادائيگى كرے اور اپنى حالت كے مطابق مناسب سى گاڑى خريد لے.
كيونكہ اس كا اس قيمتى گاڑى پر خرچ كرنا شرعى اخراجات ميں شامل نہيں ہوتا، بلكہ يہ اسراف اور فضول خرچى ميں شامل ہے جس سے شريعت نے منع كيا ہے.
اور نفقہ ميں معتبر يہ ہے كہ اس كے پاس آنے تك بيوى بچوں كے اخراجات موجود ہوں.
اور اس كے واپس آنے كے بعد اس كے پاس اتنى رقم ہو جو اس كى كفائت اور جن كا خرچ اس كے ذمہ ہے اس كے قائم مقام ہو مثلا گھر كا كرايہ يا تنخواہ يا تجارت وغيرہ.
اسى ليے اس پر مال تجارت كے راس المال سے جس كے نفع ميں سے وہ اپنا اور اہل وعيال كا خرچ كرتا ہے سے حج كرنا لازم نہيں، جب ايسا كرنے سے راس المال ميں نقص اور كمى واقع ہونے كى بنا پر نفع ميں بھى كمى ہوتى ہو جو اس كے اخراجات كے ليے كافى نہ ہو.
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص كى اسلامى بنك ميں كچھ رقم ہے اور اس كى تنخواہ اور اس رقم كا نفع معتدل صورت ميں اس كے اخراجات كے ليے كافى ہوتى ہے، تو كيا اس پر راس المال سے حج كرنا فرض ہے، يہ علم ميں رہے كہ ايسا كرنے سے اس كى ماہانہ آمدنى ميں كمى واقع ہو گى اور اسے كمزور كر دے گى ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” اگر تو آپ كى حالت ايسى ہى ہے جيسى آپ نے سوال ميں بيان كى ہے تو شرعى استطاعت نہ ہونے كى بنا پر حج كرنے كے مكلف نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور لوگوں پر اللہ تعالى كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا اس كے ليے فرض ہے جو وہاں تك جانے كى استطاعت ركھتا ہے .
اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:
اور اس نے تم پر دين ميں كوئى تنگى نہيں ركھى. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 36 ).
اصلى ضروريات سے مراد يہ ہے كہ: انسان كى وہ ضروريات جن كى اسے زندگى ميں زيادہ ضرورت ہوتى ہے، اور اس كے بغير گزارا كرنا مشكل ہے.
مثلا: طالب علم كے ليے كتابيں، چنانچہ ہم اسے يہ نہيں كہينگے كہ تم كتابيں فروخت كر كے اس كى قيمت سے حج كرلو، كيونكہ يہ اس كى اصلى ضروريات ميں شامل ہوتي ہيں.
اور اسى طرح وہ گاڑى جس كى اسے ضرورت ہے، ہم يہ نہيں كہينگے كہ گاڑى فروخت كر كے اس كى قيمت سے حج كرو، ليكن اگر اس كے پاس دو گاڑياں ہوں اور اسے صرف ايك گاڑى كى ضرورت ہو تو پھر اس كے ليے ايك گاڑى فروخت كر كے اس كى قيمت سے حج كرنا واجب ہے.
اور اسى طرح كاريگر كے ليے اپنے آلات اور اوزار فروخت كرنے لازم نہيں كيونكہ يہ اس كى اصل ضرورت ميں شامل ہوتے ہيں.
اور اسى طرح وہ گاڑى جس پر وہ كام اور مزدورى كر كے اپنے اہل و عيال كا خرچ كرتا ہے، حج كرنے كے ليے اسے يہ گاڑى فروخت كرنى واجب نہيں.
اور اصلى ضروريات ميں نكاح كى ضرورت بھى شامل ہے.
اس ليے اگر اس كے پاس مال تو ہے ليكن اسے نكاح كرنے كے ليے بھى مال كى ضرورت ہے اور وہ اس مال سے شادى كريگا تو وہ شادى اور نكاح كو مقدم كريگا.
مزيد تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 27120 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
تو پھر مالى استطاعت سے مراد يہ ہوئى كہ قرض كى ادائيگى، اور شرعى اخراجات اور اصلى ضروريات كے بعد بچنے والى رقم جو حج كے ليے كافى ہو.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات