كيا يہ صحيح ہے كہ جس نے شادى كر لى اس نے اپنا نصف دين مكمل كر ليا، اور اس كى دليل كيا ہے ؟
كيا شادى نصف دين ہے
سوال: 11586
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سنت نبويہ شادى كى مشروعيت پر دلالت كرتى ہے، اور يہ كہ شادى كرنا رسولوں كى سنت ميں شامل ہے، اللہ سبحانہ و تعالى كى توفيق سے انسان شادى كر كے بہت سارى برائيوں پر شر پر غلبہ اور كنٹرول كر سكتا ہے، كيونكہ شادى نظروں كو نيچا كر ديتى ہے، اور شرمگاہ كے ليے حفاظت كى باعث ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان كرتے ہوئے فرمايا:
" اے نوجوانوں كى جماعت تم ميں سے جو كوئى بھى شادى كى استطاعت ركھتا ہے وہ شادى كرے، كيونكہ يہ آنكھوں كو نيچا كرنے كا باعث اور شرمگاہ كى زيادہ حفاظت كا سبب ہے.. " متفق عليہ.
امام حاكم رحمہ اللہ نے مستدرك الحاكم ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مرفواعاً روايت كيا ہے كہ:
" جسے اللہ تعالى نے نيك و صالح بيوى عطا كى تو اللہ نے اس كے نصف دين ميں معاونت كى ہے، اسے باقى آدھے دين ميں اللہ كا تقوى اختيار كرنا چاہيے "
اور بيہقى رحمہ اللہ نے رقاشى سے يہ الفاظ روايت كيے ہيں:
" جب بندہ شادى كرتا ہے تو اس كا نصف دين مكمل ہو جاتا ہے، چنانچہ اسے باقى آدھے دين ميں اللہ كا تقوى اختيار كرنا چاہيے "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1916 ) ميں ان دونوں كو حسن لغيرہ قرار ديا ہے.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 31 )