كيا اگر ميں اپنى بيوى كو كہوں ” اللہ كے حكم سے تيرے چچا كے بيٹے كى شادى كے دن تمہارى طلاق كا دن ہوگا ” اور اس قسم كے پانچ دن بعد بيوى كے چچا كے بيٹے كى شادى تھى تو كيا اس سے طلاق ہو جائيگى ؟
اللہ كى مشيئت پر طلاق معلق كرنا
سوال: 116784
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بيوى كے چچازاد بھائى كے بيٹے كى شادى سے بيوى كى طلاق كو معلق كرنا يہ تو بالكل ايسے ہى خالص طلاق معلق كرنا ہے جيسے مہينہ ختم ہونے يا سورج طلوع ہونے وغيرہ پر طلاق كو معلق كيا جائے، چنانچہ شرط پورى ہونے پر طلاق واقع ہو جائيگى، اور اس معلق كردہ طلاق جو قسم كے حكم ہو سكتى ہے ميں علماء كرام كا جو اختلاف پايا جاتا ہے وہ يہاں جارى نہيں ہوگا.
كيونكہ اس ميں تو كسى چيز سے منع كرنا يا پھر كسى پر آمادہ كرنا اور ابھارنا يا تصديق يا تكذيب مقصود ہوتى ہے.
ليكن يہاں آپ كا يہ كہنا: اللہ كے حكم سے ” كو ديكھنا باقى ہے كہ اگر آپ نے اس معاملہ كو اللہ كى مشيئت پر معلق كيا تو اس طلاق كے واقع ہونے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے، اور اگر آپ نے اس سے مراد تاكيد يا تبرك ليا يا پھر آپ كا يہ قول عادتا تھا اور اس پر آپ طلاق معلق كرنا نہيں چاہتے تھے تو طلاق واقع ہو جائيگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اگر كہے: ” ان شاء اللہ تمہيں طلاق ” تو اسے طلاق ہو جائيگى، امام احمد رحمہ اللہ نے يہى بيان كيا ہے، اور ايك جماعت كى روايت ہے: ان كا كہنا ہے: يہ قسم ميں شامل نہيں سعيد بن مسيب اور حسن اور مكحول اور قتادہ اور زھرى مالك اور ليث اور اوزاعى اور ابو عبيد كا بھى يہى كہنا ہے.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے جو يہ مروى ہے جو طلاق واقع نہ ہونے پر دلالت كرتا ہے يہ طاؤس اور حكم اور ابو حنيفہ اور شافعى رحمہ اللہ كا قول ہے، كيونكہ اس نے مشيئت پر معلق كيا ہے جس كى حدود اور وجود كا علم نہيں، اس ليے يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، بالكل اسى طرح اگر وہ زيد كى مشيئت پر اسے معلق كرے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 357 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” تيسرا قول وسط اور درميانہ ہے كہ اگر وہ اپنے قول: ” اگر اللہ نے چاہا ” يعنى اگر اللہ نے چاہا كہ تمہيں طلاق ہو تو اس قول سے طلاق واقع ہو جائيگى؛ كيونكہ ہميں علم ہے كہ جب كسى چيز كا سبب پايا جائے تو اللہ اس چيز كو چاہتا ہے.
اور اگر وہ اپنے اس قول: ان شاء اللہ ” يعنى مستقبل ميں طلاق چاہتا ہو تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى جب تك كہ وہ مستقبل ميں دوبارہ طلاق واقع نہ كرے، اور صحيح بھى يہى ہے.
اور اگر كہے: ميں نے تو اس سے تبرك چاہا تھا اور ميرا ارادہ معلق كرنا نہ تھا مثلا حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اور ان شاء اللہ ہم بھى يقينا آپ لوگوں كے ساتھ ملنے والے ہيں ”
يعنى قبروں والوں كے ساتھ، اور يقينى اور قطعى طور پر ہم بھى وہيں جا كر ان سے ملنے والے ہيں، تو كہا گيا ہے يہاں تبرك مراد ہے اس ليے اگر وہ كہے: ميں نے تو تبرك چاہا تھا تو طلاق واقع ہو جائيگى ” انتہى
ديكھيں: الشرح ا لممتع ( 13 / 155 ).
اور شيخ محمد مختار شنقيطى حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” اور اگر اس كا قول: ان شاء اللہ ” تعليق كے قصد سے ہو تو يہ اس قول كے خلاف ہو گا كہ اگر وہ تبركا ان شاء اللہ كہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا نام بابركت ہے تو وہ كہے ان شاء اللہ ميں يہ كرونگا، ان شاء اللہ ميں كہوں گا، اور اس سے اس كا مقصد معلق كرنا نہ ہو، اور نہ ہى وہ دل ميں معلق كرنے كى نيت ركھتا ہو، اور اسى طرح جس كى زبان پر يہ كلمہ ہو اور ان شاء اللہ كہنا اس كى عادت بن چكى ہو تو جب وہ كہے تجھے طلاق ان شاء اللہ تو زبان پر ان شاء اللہ بغير قصد و ارادہ جارى ہوا ہو دل ميں معلق كرنے كا ارادہ و مقصد نہ تھا اور اسى طرح جب وہ تحقيق چاہتا ہو تو كہے: ان شاء اللہ تمہيں طلاق يہ اس معاملہ كو ثابت كرنے كے ليے كہے چنانچہ ان سب صورتوں ميں علماء كے ہاں بغير كسى اختلاف كے ايك ہى وجہ سے طلاق ہو جائيگى ” انتہى
ماخوذ از: شرح زاد ا لمستقنع.
خاوند كو چاہيے كہ وہ اللہ كا ڈر اختيار كرتے ہوئے طلاق كو صرف اس كى جگہ پر ہى استعمال كرے ويسے ہى استعمال نہ كرتا رہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب