اول:
عورت كے ليے طلاق كا مطالبہ كرنا جائز نہيں صرف طلاق اسى صورت ميں طلب كرنا جائز ہے جب اس كى ضرورت ہو مثلا خاوند كى جانب سے حسن معاشرت نہ ہو.
اس كى دليل ابو داود اور ترمذى اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس عورت نے بھى بغير كسى تنگى اور سبب كے طلاق طلب كى اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1187 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور اس تفصيلى بيان سوال نمبر (117185 ) كے جواب ميں تفصيل سے ہو چكا ہے كہ صرف اختلاف ہو جانے يا پھر خاوند اور بيوى كا آپس ميں صرف جھگڑا ہونے سے طلاق جائز نہيں ہو جاتى، اور پھر خاوند كو آزمانے اور بيوى كا خاوند كے دل ميں مقام ديكھنے كے ليے طلاق طلب كرنا تو اور بھى دور كى بات ہے، اور يہ سراسر غلط ہے، اس طرح كى حالت ميں شيطان كامياب ہو كر خاوند كو طلاق پر آمادہ كر سكتا ہے، يا پھر خاوند كے دل ميں يہ مزين كر كے ركھ دےگا كہ بيوى اسے ناپسند يا اس سے نفرت كرتى ہے.
بلكہ خاوند اور بيوى كے مابين تو طلاق كا ذكر ہى نہيں ہونا چاہيے نہ تو مذاق ميں اور نہ ہى حقيقت ميں، بلكہ الحمد للہ جب معاملات صحيح ہوں تو اپنے خيالات اور سوچ كو طلاق جيسے چيز سے دور ہى ركھنا چاہيے، تا كہ اس طرح كہ معاملہ كے اقدام ميں انسان كى سوچ سہل نہ ہو جائے.
اس ليے ہم يہ كہنيگے كہ آپ اس عمل سے توبہ و استغفار كريں، اور اپنے خاوند كو جو خبر بتائى ہے اس پر معذرت كريں.
دوم:
اگر آپ كا خاوند كہتا: اگر تم دل سے طلاق چاہتى ہو تو تمہيں طلاق، اور واقعتا آپ طلاق نہ چاہتى تھيں تو اس سے طلاق واقع نہيں ہو گى، اور نہ ہى يہ قسم ہو گى.
ليكن آپ كے خاوند نے نے يہ نہيں كہا: بلكہ اس سے كم چيز كہى ہے اور وہ يہ قول ہے: اگر تم چاہتى ہو تو …. تو تم جيسے چاہو ” اور يہ صريح طلاق كے الفاظ نہيں، بلكہ يہ كنايہ كے الفاظ ہيں اور جب تك كنايہ ميں خاوند طلاق كى نيت نہ كرے اس وقت تك طلاق نہيں ہوتى.
مزيد آپ سوال نمبر (98670 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
پھر اس نے اسے تو ايسے معاملہ پر معلق كيا ہے جو واقع بھى نہيں ہوا، اور وہ آپ كا طلاق كا ارادہ اور رغبت تھى.
چنانچہ خاوند كے ان الفاظ سے طلاق واقع نہيں ہوگى اور اسى طرح اس پر كفارہ بھى لازم نہيں آتا.
واللہ اعلم .