ميرى عمر چاليس برس ہو چكى ہے اور ميں دس برس سے شادى شدہ ہوں اور بيوى كے اعضاء تناسليہ ميں پرابلم كى وجہ سے اب تك كوئى اولاد پيدا نہيں ہوئى، ہم نے بہت سارے ڈاكٹر حضرات سے رابطہ كيا اور بہت علاج كيا ہے ليكن كوئى فائدہ نہيں ہوا، اب ميرے گھر والے مجھ پر دوسرى شادى كرنے كا دباؤ ڈال رہے ہيں اور ميں بھى اس سوچ پر مطمئن ہوں، ليكن اپنى بيوى كے دل كو زخمى نہيں كرنا چاہتا، كيونكہ اس نے دوسرى شادى كى سوچ رد كر دى ہے اور شادى كى صورت ميں خود كشى كرنے كى دھمكى دى ہے، برائے مہربانى مجھے راہنمائى كريں كہ مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
دس برس سے اس كى كوئى اولاد نہيں اب دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى نے خودكشى كى دھمكى دے دى ہے
سوال: 118475
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ و تعالى كى حكمت ہے كہ بعض كو بچے عطا كيے ہيں اور بعض كو بچياں، اور بعض لوگوں كو بچے اور بچياں دونوں ہى عطا كيے ہيں، اور جسے چاہا اللہ نے بانجھ بنا ديا اور اسے كوئى اولاد عطا نہ كى، اسى ميں اس كى حكمت تامہ تھى، اللہ سبحانہ و تعالى پاك اور بلند و بالا ہے، وہ اپنے بندوں كى حالت كو جانتا ہے، اور يہ بھى علم ركھتا ہے كہ ان كے ليے كيا بہتر ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
آسمان و زمين كى بادشاہى اللہ ہى كے ليے ہے، وہ جو چاہتا ہے پيدا كرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑكياں عطا كرتا ہے، اور جسے چاہتا ہے لڑكے عطا كرتا ہے، يا انہيں لڑكے اور لڑكياں دونوں ہى عطا كر ديتا ہے، اور جسے چاہے بانجھ بنا ديتا ہے، يقينا وہ علم والا قدرت والا ہے الشورى ( 49 – 50 ).
اولاد نعمتوں ميں سے ايك نعمت ہے، اور اس نعمت كا حصول مقاصد شريعت ميں سے ايك مقصد ہے جس كو حاصل كرنے كے ليے نكاح مشروع كيا گيا ہے، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وصيت كرتے ہوئے زيادہ بچے جننے اور زيادہ محبت كرنے والى عورت سے شادى كرنے كا حكم ديا، جيسا كہ ابو داود ميں درج ذيل حديث مروى ہے:
معقل بن يسار رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے ساتھ باقى امتوں سے زيادہ ہونے ميں فخر كرونگا ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 1805 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
بعض اوقات اولاد كى پيدائش ميں تاخير ہو جاتى ہے اور ڈاكٹر كہتے ہيں كہ اولاد ہو ہى نہيں سكتى، ليكن پھر اللہ تعالى اولاد كا انعام كر ديتا ہے، اور يہ بات مشاہدہ ميں بھى ہے اور سب كو معلوم ہے.
اس سبب كے باعث يا كسى اور كسى سبب كے انسان كے ليے دوسرى شادى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ بيويوں ميں عدل و انصاف كرے اور كسى پر ظلم مت كرے، اور اس ميں پہلى بيوى كى رضامندى اور اس كى اجازت كى شرط نہيں.
آپ كو دو چيزوں كا اختيار ہے: يا تو آپ اسى بيوى پر صبر كريں اور اس سے حسن معاشرت كرتے ہوئے اللہ سبحانہ و تعالى سے اميد ركھيں كہ اللہ تعالى آپ كو اسى سے اولاد عطا فرمائيگا يا پھر آپ دوسرى شادى كر ليں ليكن يہ احتمال ہے كہ پہلى بيوى آپ كے ساتھ نہ رہنا چاہے اور وہ طلاق كا مطالبہ كر دے تو آپ كو اس كى جدائى اختيار كرنى پڑے، يا پھر آپ آپ كى زندگى اجيرن ہو جائے اور مشكلات كا سامنا كرنا پڑے، يا وہ جيسا كہ دھمكى دے رہى ہے خودكشى كر بيٹھے، اس ليے آپ ان دونوں معاملوں ميں موازنہ كرتے ہوئے اللہ سے استخارہ بھى كريں.
ہر حال ميں بيوى كو نصيحت كرنى چاہيے كہ خودكشى كا سوچنا اہل ايمان كى نشانى نہيں اور نہ ہى وہ ايسا كرتے ہيں، كيونكہ خودكشى ايك عظيم جرم ہے، اور كبيرہ گناہ ہے، بہت سارى نصوص ميں اس كى شديد وعيد آئى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تم اپنے آپ كو قتل مت كرو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ بہت رحم كرنے والا ہے، اور جو كوئى ظلم و زيادتى كرتے ہوئے ايسا كرے اسے ہم آگ ميں ڈاليں گے النساء ( 29 – 30 ).
اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس نے بھى پہاڑ سے گر كر اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ كے ليے اوپر سے گرتا ہى رہےگا، اور جس نے زہر خورى كر كے اپنے آپ كو قتل كيا تو اس كے ہاتھ زہر ہو گا اور وہ جہنم كى آگ ميں ہمشہ كے ليے زہر كے گھونٹ بھر رہا ہوگا، اور جس نے كسى لوہے كے ساتھ اپنے آپ كو قتل كيا تو وہ لوہا اس كے ہاتھ ميں ہوگا جس سے وہ جہنم كى آگ ميں ہميشہ اپنے پيٹ كو چاك كرتا رہےگا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5442 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 109 ).
اور ثابت بن ضحاك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جس كسى نے بھى اپنے آپ كو كسى چيز كے ساتھ قتل كيا تو اسے روز قيامت اسى كا عذاب ديا جائيگا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5700 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 110 ).
اور جندب بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” تم سے پہلى امت ميں ايك شخص كو زخم تھا تو اس سے وہ زخم برداشت نہ ہوا اور اس نے چھرى لے كر اپنا ہاتھ كاٹ ليا اور اس كا خون بہتا رہا حتى كہ وہ مر گيا، اللہ تعالى نے فرمايا:
ميرے بندے ميں خود ہى مجھ سے جلدى كر لى ميں نے اس پر جنت كو حرام كر ديا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3276 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 113 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كے ليے معاملہ ميں آسانى پيدا فرمائے، اور آپ كے ليے خير و بھلائى جہاں بھى ہو اس كو آسان كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب