كيا كسى حكمران كے ليے كسى وقت كوئى حدد معطل كرنى جائز ہے، جس طرح عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عام الرمادہ ميں چورى كى حد ساقط كر دى تھى ؟
كيا حكمران كے كسى وقت كوئى حد معطل كرنى جائز ہے ؟
سوال: 118686
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” مسلمانوں پر واجب ہے كہ وہ اللہ تعالى كى فرض كردہ حدود قائم كريں، جس طرح امير المومنين عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے منبر پر خطبہ كے دوران شادى شدہ زانى كو رجم كرنے كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا:
ان كا كہنا تھا:
” مجھے خدشہ ہے كہ لوگ ايك لمبا وقت گزرنے پر كہنے لگيں: ہم تو كتاب اللہ ميں رجم نہيں پاتے؛ تو اللہ تعالى كا نازل كردہ فرض ترك كرنے كى وجہ سے وہ گمراہ ہو جائينگے ”
چنانچہ انہوں نے بيان كيا كہ يہ ايك فريضہ ہے، اور بلاشك و شبہ يہ فرض ہى ہے، اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت دونوں كے ہاتھ كاٹ دو المآئدۃ ( 38 ).
اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى ہے:
زانى عورت اور زانى مرد دونوں ميں سے ہر ايك كو سو كوڑے مارو، ان پر اللہ كى شريعت كى حد جارى كرتے ہوئے تمہيں ہرگز ترس نہ كھانا چاہيے النور ( 2 ).
اور ايك مقام پر ارشاد ربانى كچھ اس طرح ہے:
جو اللہ تعالى سے اور اس كے رسول سے لڑيں اور زمين ميں فساد كرتے پھريں ان كى سزا يہى ہے كہ وہ قتل كر ديئے جائيں، يا سولى چڑھا ديئے جائيں، يا مخالف جانب سے ان كے ہاتھ پاؤں كاٹ ديئے جائيں، يا انہيں جلاوطن كر ديا جائے، يہ تو ان كى دنيوى ذلت اور خوارى ہے المآئدۃ ( 33 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم سے پہلے اسى ليے ہلاك كر ديئے گئے كہ جب ان ميں كوئى شرف و مرتبہ والا چورى كر ليتا تو اسے چھوڑ ديتے، اور جب ان ميں سے كوئى كمزور شخص چورى كرتا تو اس پر حد جارى كر ديتے، اللہ كى قسم اگر فاطمہ بنت محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) بھى چورى كرتى تو ميں اس كا ضرور ہاتھ كاٹ ديتا “
كسى بھى حالت ميں ان حدود اللہ كو معطل كرنا جائز نہيں، اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے جو مروى ہے كہ انہوں نے قحط سالى اور بھوك كے سال حد ساقط كر دى تھى، تو يہ دو چيزوں كى محتاج ہے:
اول:
اس كا صحيح ثبوت ملنا: جو شخص اس كا دعوى كرتا ہے ہم اسے مطالبہ كرتے ہيں كہ وہ اسے صحيح سند كے ساتھ امير المومنين رضى اللہ تعالى عنہ تك ثابت كرے.
دوم:
عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے شبہ قائم ہونے كى وجہ سے حد ختم كى تھى، كيونكہ لوگ قحط اور بھوك ميں تھے، كيونكہ بعض اوقات انسان ضرورت كى بنا پر چيز ليتا ہے، نہ كہ اس سے سير ہونے كے ليے بغير ضرورت ہى.
اور يہ معلوم ہے كہ مسلمانوں كے ليے كھانے پر مجبور اور بھوكے شخص كو كھانا كھلانا واجب ہے؛ تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ كو خدشہ پيدا ہوا كہ ہو سكتا ہے اس چور كو كھانے كى ضرورت تھى اور اسے اس سے روك ديا گيا، تو اسے چورى كى فرصت ملى تو اس نے چورى كر لى، اور پھر اگر ان كى طرف يہ منسوب اثر صحيح ہو كہ انہوں نے عام المجاعۃ والے سال چورى كى حد ساقط يا ختم كى تھى تو يہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے لائق ہے.
رہا ہمارے آج كے دور كے حكمرانوں كا مسئلہ تو ان كے دين كے متعلق وثوق نہيں، يعنى ان ميں سے ا كثر كے دين كا بھروسہ اور وثوق نہيں كا جا سكتا، اور نہ ہى رعايا كے ليے نصيحت و خير خواہى كا وثوق ہے.
اور اگر يہ دروازہ كھول ديا گيا تو يہ حكمران ـ ميرى مراد بعض حكمران ہيں ـ كہنے لگيں گے: اس دور ميں حد جارى كرنا مناسب نہيں؛ كيونكہ ہمارے دشمن كفار ہم پر تہمت لگاتے ہيں كہ ہم بےوقوف اور بےكار اور وحشى ہيں.
اور ہم حقوق انسانى كا خيال كرنے سے ڈرتے ہيں جن كا دھيان ركھنا ضرورى ہے؛ پھر وہ اس بہانے سے سارى حديں ہى ختم كر ديگا، جيسا كہ افسوس كے ساتھ بہت سارے مسلمان ملكوں ميں پايا جاتا ہے؛ كہ انہوں نے اللہ كےدشمنوں كا خيال كرتے ہوئے حدود اللہ كو معطل كر ديا ہے.
اسى ليے جب حدود معطل كر دى گئيں تو جرائم زيادہ ہو گئے، اور لوگ ـ حتى كہ جن حكمرانوں نے اس مسئلہ ميں كفار كى پيروى كى تھى ـ وہ پريشان ہو گئے كہ اس طرح كے جرائم ميں وہ كيا كريں ” انتہى.
فضيلۃ الشيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ.
ديكھيں: فتاوى علماء البلد الحرام ( 483 – 484 ).
اس كا بيان يہ ہے كہ:
چور پر چورى كى حد لگانے كى شروط ميں شامل ہے كہ: چور كو مسروقہ مال ميں كوئى شبہ نہ ہو، عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس ليے حد جارى نہيں كى تھى كيونكہ اس كے وجوب كى شروط متوفر نہ تھيں، اور جو شخص بھوك اور قحط كے وقت چورى كرتا ہے اسے اس مال ميں شبہ ہے تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے چور پر حد واجب ہونے كے بعد ساقط يا معطل نہيں كى تھى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب