ميں حمل اور نماز كے متعلقہ كچھ سوالات كرنا چاہتى ہوں:
جب عورت حاملہ ہوتى ہے اور خاص كر حمل كے ابتدائى ايام ميں عادتا بيمارى محسوس كرنے لگتى ہے، ميں بھى حمل كے ابتدائى ايام ميں ہوں جس بنا پر سارا دن ہى متلى كى سى كيفيت محسوس كرتى رہتى ہوں، اس حالت ميں نماز كا حكم كيا ہے ؟
كيا اس كے ليے نمازيں جمع كرنا جائز ہيں، اور كيا ( كھڑى ہونے كى صورت ميں متلى كى كيفيت ميں اضافہ محسوس كرے ) وہ نماز بيٹھ كر ادا كر سكتى ہے ؟
جب ميں كھڑى ہو كر نماز ادا كرتى ہوں اس كيفيت كے خدشہ كے پيش نظر نماز جلد ادا كرتى ہوں، جس كى بنا پر ميں نماز دھيان سے ادا نہيں كر سكتى ؟
ہر وقت متلى كى شكايت والى حاملہ عورت نماز كيسے ادا كرے ؟
سوال: 11878
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان شخص كے ليے كسى بھى حالت ميں نماز ترك كرنا جائز نہيں، ليكن جو شخص بيمار ہو وہ جس حالت ميں بھى نماز ادا كر سكتا ہو نماز ادا كرے، نماز كھڑے ہو كر ادا نہيں كر سكتا تو بيٹھ كر ادا كرلے، اور اگر بيٹھ كر نہيں ادا كر سكتا تو پہلو كے بل ادا كر لے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:
1 – عمران بن حصين رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” نماز كھڑے ہو كر ادا كرو، اور اگر كھڑے ہونے كى طاقت نہيں تو بيٹھ كر نماز ادا كرو، اور اگر بيٹھ كر بھى ادا نہيں كر سكتے تو پہلو كے بل ادا كرو ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1117 ).
2 – جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك مريض شخص كو تكيہ پر نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا تو تكيہ پھينك كر فرمانے لگے:
” اگر استطاعت ہے تو زمين پر نماز ادا كرو، وگرنہ آپ اشارہ كر كے ادا كرلو، اور اپنا سجدہ ركوع سے كچھ نيچے كرو “
اسے بيھقى نے قوى سند كے ساتھ روايت كيا ہے حديث نمبر ( 4359 ) ليكن ابو حاتم نے اس پر موقوف كا حكم لگايا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 323 ) ميں اسے صحيح كہا ہے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (7522 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
دوم:
آپ كا يہ كہنا كہ: ” ميں دوران حمل متلى كى كيفيت محسوس كرتى ہوں”
يہ چيز نماز كى ادائيگى ميں مانع نہيں، اگر آپ متلى كى كيفيت محسوس كرنے كى حالت ميں بھى نماز ادا كريں تو اس سے نماز باطل نہيں ہو گى.
سوم:
آپ كا يہ كہنا: ” اگر عورت كے ليے ہر نماز بروقت نماز ادا كرنے ميں مشقت ہو تو كيا وہ نمازيں جمع كر سكتى ہے ”
مشقت كى مثاليں يہ ہے: سفر، بيمارى، بارش، كيچڑ، اور شديد قسم كى ٹھنڈى اور تيز ہوا ….
ليكن قصر كے متعلق گزارش ہے كہ صرف سفر ميں ہى نماز قصر ہو سكتى ہے اس كے علاوہ نہيں.
جو عورت متلى كى كيفيت محسوس كرتے ہوئے نماز ادا كرتى ہے ان شاء اللہ وہ عند اللہ ماجور ہے، كيونكہ اس نے اس شديد حالت ميں بھى نماز كى پابندى كى ہے، اور حمل كى بنا پر اسے جو تكليف اور مشقت اٹھانى پڑ رہى ہے وہ گناہوں كا كفارہ بھى بنے گى، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان بھى يہى ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” مسلمان شخص كو جو بھى تكليف اور مصيبت اور غم و پريشانى اور اذيت پہنچتى ہے حتى كہ جو كانٹا اسے لگتا ہے اس كى بنا پر بھى اللہ تعالى اس كى غلطياں اور گناہ مٹاتا ہے ”
صحيح بخارى كتاب المرضى حديث نمبر ( 5210 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات