0 / 0
14,12327/05/2009

عزل كرنا اور مانع حمل گوليوں كا استعمال

سوال: 11885

جابر رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

” ہم عزل كيا كرتے تھے اور قرآن مجيد كا نزول ہو رہا تھا ”

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں اس سے منع نہيں فرمايا.

ميرا سوال يہ ہے كہ:

1 ـ كيا كنڈوم يا مانع حمل گولياں استعمال كرنا جائز ہے ؟

2 ـ اگر جواب اثبات ميں ہے تو استعمال كى شروط كيا ہيں ؟

3 ـ اس قسم كى گولياں اور كنڈوم استعمال كرنے ميں كيا نيت ہونى چاہيے ؟

صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عزل كيوں كيا كرتے تھے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

مسلمانوں كو چاہيے كہ وہ اپنى نسل ميں كثرت پيدا كريں اور جتنى استطاعت ہو بچے زيادہ سے زيادہ پيدا كريں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى كى راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا ہے:

” تم ايسى عورت سے شادى كرو جو بہت زيادہ محبت كرنے والى ہو اور زيادہ بچے جننے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارے زيادہ ہونے كى وجہ سے دوسرى امتوں پر فخر كرونگا ”

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 1805 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس ليے بھى كہ نسل كى كثرت ہونا امت زيادہ ہونے كا باعث ہے، اور امت كى كثرت اس كى عزت ہے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے بنى اسرائيل پر اسے بطور نعمت ذكر كرتے ہوئے فرمايا:

اور ہم نے تمہيں بڑے جتھے والا بنايا بنى اسرائيل ( 6 ).

اور شعيب عليہ السلام نے اپنى قوم كو فرمايا تھا:

اور تم ياد كرو جب تم تھوڑے تھے تو اللہ نے تمہيں زيادہ كر ديا الاعراف ( 86 ).

اور اس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا كہ امت كى كثرت اس كى عزت و قوت كا سبب ہے جو كہ غلط قسم كا گمان ركھنے والوں كے تصور كے برعكس ہے جن كا گمان ہے كہ امت كى كثرت اس كى بھوك اور فقر كا باعث بنتى ہے حالانكہ يہ غلط اور خلاف فطرت ہے.

اور جب امت كے افراد ميں اضافہ اور كثرت ہو اور وہ اللہ عزوجل پر توكل و بھروسہ كرے اور اللہ كے وعدہ پر ايمان ركھے جو درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں كيا گيا ہے تو اللہ تعالى اس كے سب معاملات ميں آسانى پيدا فرماتے ہوئے اپنے فضل و كرم سے انہيں غنى كر ديتا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اور زمين پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہيں سب كى روزياں اللہ تعالى پر ہيں .

اس بنا پر اس سوال كا جواب بھى واضح ہو جاتا ہے اس ليے مانع حمل گولياں عورت كو استعمال نہيں كرنى چاہييں ليكن اسے دو شرطوں كے ساتھ استعمال كيا جا سكتا ہے:

پہلى شرط:

اسے ان گوليوں كے استعمال كى ضرورت ہو، مثلا وہ مريض ہو اور ہر برس حمل برداشت نہ كر سكتى ہو، يا پھر وہ اتنى كمزور ہو يا كوئى اور مانع ہو جو ہر سال حمل برداشت كرنے كى سكت نہ ركھ سكتى ہو اور اس ميں اسے نقصان كا انديشہ ہو.

دوسرى شرط:

خاوند اس كى اجازت دے؛ كيونكہ خاوند كو بھى اولاد پيدا كرنے كا حق حاصل ہے، اور پھر اس طرح كى گولياں استعمال كرنے كے بارہ ميں كسى ماہر اور تجربہ كار ڈاكٹر سے مشورہ ضرور كرنا چاہيے كہ آيا وہ اس كے ليے نقصاندہ ہيں يا نقصاندہ نہيں، لہذا جب يہ دو شرطيں پائى جائيں تو پھر يہ گولياں استعمال كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن يہ مستقل طور پر استعمال نہ كى جائيں كيونكہ يہ نسل كو ختم كرنا ہے.

اور دوران جماع عزل كرنا: تو اس كے متعلق اہل علم كے اقوال ميں صحيح قول يہى ہے كہ ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں كيونكہ جابر رضى اللہ عنہ كى حديث ہے:

” ہم عزل كيا كرتے تھے اور قرآن مجيد كا نزول ہو رہا تھا ”

يعنى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں ہم عزل كيا كرتے تھے، اور اگر يہ فعل حرام ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس سے منع فرما ديتے.

ليكن اہل علم كا كہنا ہے كہ آزاد عورت سے عزل كرنے كے ليے بيوى كى اجازت لينا ضرورى ہے، كيونكہ اس كا بھى اولاد ميں حق حاصل ہے، پھر خاوند كے عزل كرنے ميں عورت كے استمتاع اور حصول لذت ميں نقص و كمى ہے، كيونكہ عورت كو لذت حاصل ہى انزال كے بعد حاصل ہوتى ہے…

اس بنا پر بيوى سے اجازت نہ لينے ميں اس كى تكميل لذت اور استمتاع ميں كمى نقص حاصل ہوتا ہے، اور اولاد كا حصول بھى نہيں ہوتا، اور اسى ليے ہم نے شرط ركھى ہے كہ عزل كے ليے بيوى كى اجازت لينا ضرورى ہے ” اھـ

ماخوذ از: فتاوى الشيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 190 ).

سوم:

صحابہ كرام كا عزل كرنے ميں سبب يہ تھا كہ وہ عورت كے حمل كى رغبت نہيں ركھتے تھے ـ خاص كر لونڈى كو حمل ٹھرنے ميں ـ تا كہ انہيں مكمل استمتاع حاصل ہو اور وہ خاوند اور اپنے مالك كى مكمل خدمت كر سكے.

ابو داود رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے كہ: ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرى ايك لونڈى ہے اور ميں اس سے عزل كرتا ہوں مجھے پسند نہيں كہ اسے حمل ٹھرے، اور ميں اس سے وہ كچھ چاہتا ہوں جو مرد چاہتے ہيں، اور يہودى يہ كہتے ہيں كہ عزل كرنا چھوٹا زندہ درگور كرنا ہى ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” يہودى جھوٹ بولتے ہيں، اگر اللہ تعالى اسے پيدا كرنا چاہے تو تم اسے روك نہيں سكتے ”

سنن ابو داود كتاب النكاح حديث نمبر ( 1856 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 1903 ) نے اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور پھر كنڈوم استعمال كرنا ايك غير فطرى عمل ہے عزل نہيں بلكہ عزل تو بغير كنڈوم استعمال كيے ہوتا ہے كہ جب انزال كى ضرورت پيش آئے تو مرد انزال باہر كرتا ہے تا كہ عورت كے رحم ميں مادہ منويہ نہ جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android