اور الحمد للہ ميں نے اسلام قبول كر ليا ہے، اور ايك مسلمان شخص سے شادى شدہ ہوں ہمارى اولاد نہيں ہے، ميں يہاں يورپ ميں ايك فيكٹرى ملازم تھى ليكن اب اس فيكٹرى نے كام بند كر ديا تو ميرى ملازمت ختم ہو گئى، ميں بہت خوش ہوں كيونكہ ميں گھر ميں رہنا چاہتى تھى اور ملازمت ميں مرد و عورت كا اختلاط بھى تھا.
مشكل يہ ہے كہ ميرے خاوند كى آمدنى بہت كم ہے اس مہنگائى كے دور ميں اس سے خرچ پورا نہيں ہوتا، اسى طرح خاوند كے اپنے ملك ميں غريب بھائى بھى ہيں ان كى مدد كرنا بھى ضرورى ہے اس ليے وہ چاہتا ہے كہ ميں بھى ملازمت كروں ميں نے مرد و عورت كے اختلاط كے بغير ملازمت بہت تلاش كى ليكن نہيں مل سكى.
ميں نے جرمنى ميں ايك عالم دين سے رابطہ كيا تو اس نے ميرے خاوند كو بتايا كہ ميرا گھر ميں رہنا افضل ہے، ليكن ميرا خاوند انكار كرتا ہے اور ميرى ملازمت پر مصر ہے، اس نے مجھے كہا ہے كہ: اگر تمہيں ايك ماہ ميں ملازمت نہ ملى تو ميں تجھے طلاق دے دوں گا ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا ميں كسى شخص اور اس كى بيوى سے يہ كہہ سكتى ہوں كہ وہ مجھے اپنے پاس گھريلو ملازمہ اور بچے كى پرورش كرنے كے ليے ركھ ليں ؟
اور اگر مجھے كوئى حلال كام مليں تو كيا ميرے ليے يہ ملازمت كرنا لازم ہے، برائے مہربانى مجھے بتائيں كہ اب ميں كيا كروں ؟
اگر ملازمت نہ كرے تو طلاق كى دھمكى
سوال: 119540
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
خاوند پر بيوى كے اخراجات اور اس كى رہائش اور كھانا وغيرہ كے اخراجات واجب ہيں، اور بيوى پر اس ميں سے كچھ بھى واجب و لازم نہيں اگرچہ بيوى ملازمت بھى كرتى ہو يا مالدار بھى ہو.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
چاہيے كہ مالدار اپنى وسعت كے مطابق خرچ كرے الطلاق ( 7 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” اور تمہارے ذمہ ان بيويوں كى روزى اور ان كا لباس ہے اچھے طريقہ سے ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو سفيان كى بيوى ھند رضى اللہ تعالى عنہما كو فرمايا تھا:
” تم اس كے مال سے اتنا لے لو جو تمہارى اولاد كے ليے كافى ہو اچھے طريقہ سے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5364 ).
دوم:
اصل تو يہى ہے كہ وہ عورت اپنے گھر ميں ہى رہے اور بغير ضرورت گھر سے باہر مت نكلے، اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم اپنے گھروں ميں ٹكى رہو، اور قديم جاہلت كى طرح اپنے بناؤ سنگھار كو ظاہر مت كرو الاحزاب ( 33 ).
يہ خطاب اگرچہ ازواج مطہرات كو ہے، ليكن مومنوں كى عورتيں اس مسئلہ ميں ان كے تابع ہيں، اور يہ خطاب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں كو ان كے شرف اور مقام و مرتبہ كى بنا پر ہے، اور اس ليے بھى كہ وہ مومن عورتوں كے ليے قدوہ اور نمونہ ہيں.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” عورت سارى كى سارى ستر ہے، اور جب وہ باہر نكلتى ہے تو شيطان اسے جھانكتا ہے، عورت اللہ كے سب سے زيادہ قريب اسى صورت ميں ہوتى ہے جب وہ اپنے گھر كے آخرى اور انتہائى گہرائى ميں ہو ”
اسے ابن حبان اور ابن خزيمہ نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحہ حديث نمبر ( 2688 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كے ليے مسجد ميں آ كر نماز ادا كرنے كے متعلق فرمايا:
” اور ان كے گھران كے ليے بہتر ہيں “
سنن ابو داود حديث نمبر ( 567 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
سوم:
عورت كے ليے مرد و عورت كى اختلاط والى جگہ پر كام كاج اور ملازمت كرنا حرام ہے، كيونكہ اس اخلاط ميں بہت سارى خرابياں اور ممنوعات پائى جاتى ہيں جو مرد اور عورت دونوں كے ليے باعث ضرر ہيں.
ليكن عورت كے ليے مباح كام جہاں مرد و عورت كا اختلاط نہ پايا جاتا ہو وہ درج ذيل ضوابط كے تحت جائز ہے:
ـ عورت كو كام كى ضرورت ہو.
ـ وہ كام اور ملازمت عورت كى خلقت كے شايان شان اور موافق ہو، مثلا ليڈى ڈاكٹر اور نرسنگ، اور ٹيچنگ، اور كپڑے سلائى كرنا وغيرہ.
ـ وہ كام اور ملازمت صرف عورتوں كے شعبہ ميں ہو جس ميں مرد و عورت كا بالكل اختلاط نہ پايا جائے.
ـ عورت اپنى ملازمت ميں شرعى پردہ كا مكمل اہتمام كرے.
ـ اس كى ملازمت اور كام كے نتيجہ ميں اسے بغير محرم حرام سفر نہ كرنا پڑتا ہو.
ـ ملازمت كے ليے اس كے گھر سے باہر نكلنے ميں حرام كا ارتكاب نہ كرنا پڑتا ہے، مثلا ڈرائيور كے ساتھ خلوت، يا خوشبو لگا كر نكلنا جسے اجنبى مرد سونگھيں.
ـ اس ملازمت اور كام كى بنا پر واجب و فرائض مثلا گھر كى ديكھ بھال اور خاوند اور اولاد كے كام كاج ضائع ہونے كا باعث نہ بنے.
شيخ محمد صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” عورت كے ليے كام كاج اور ملازمت كى مجال يہ ہے كہ وہ عورتوں كے ساتھ مخصوص ہو، مثلا لڑكيوں كى تعليم ميں ملازمت كرے، چاہے وہ آفس ميں ہو يا فنى، اور اپنے گھر ميں عورتوں كے كپڑے سلائى كر لے، يا اس طرح كا كوئى اور كام جو صرف عورتوں كے ليے مخصوص ہو.
ليكن ايسا كام جو مردوں كے ساتھ مخصوص ہے وہ عورت كے ليے جائز نہيں كيونكہ اس سے مرد و عورت كا اختلاط لازم آتا ہے، اور يہ بہت عظيم اور خطرناك فتنہ و خرابى ہے جس سے بچنا اور اجتناب كرنا ضرورى ہے.
اور يہ جاننا بھى ضرورى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ميں نے اپنے بعد مردوں كے ليے عورتوں سے زيادہ نقصاندہ فتنہ نہيں چھوڑا، اور يہ كہ بنى اسرائيل ميں بھى عورتوں كا فتنہ تھا ”
اس ليے آدمى كو چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو فتنے اور فساد والى جگہ اور اس كے اسباب سے ہر حالت ميں محفوظ ركھے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى المراۃ المسلمۃ ( 2 / 981 ).
چہارم:
بچے كى پرورش اور ديكھ بھال كى ملازمت كرنا اگر تو آپ يہ اپنے گھر ميں كريں تو اس ميں كوئى اشكال نہيں، اور اگر جن كے بچوں كى پرورش كرنى ہے ان كے گھر ميں ہو تو پھر بچے كے والد كے ساتھ خلوت اور دوسرى ممنوعہ اشياء سے احتراز كرنا ضرورى ہے، مثلا مردوں سے مصافحہ كرنا اور انہيں ديكھنا اور بغير ضرورت كے ان سے بات چيت كرنا.
آپ پر ملازمت كرنا واجب اور ضرورى نہيں چاہے وہ كام مباح ہى كيوں نہ ہو، ليكن اگر آپ كے خاوند نے عقد نكاح ميں ملازمت كرنے كى شرط ركھى ہو تو پھر اس صورت ميں واجب ہوگا.
اور اگر آپ كو خدشہ ہو كہ خاوند آپ كو طلاق دے دے گا تو پھر آپ كو دونوں ميں سے ايك كا اختيار ہے چاہے ملازمت كريں يا پھر طلاق لے ليں، ليكن اس حالت ميں آپ كے ليے بہتر يہى ہے كہ آپ كوئى ايسا كام اور ملازمت تلاش كريں جو مباح ہو، اور ان شاء اللہ آپ كو ايسا كام مل جائيگا، كيونكہ ملازمت كى تنگى اور كڑواہٹ طلاق سے آسان ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كى تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اس كو وہم و گمان بھى نہيں ہوتا، اور جو اللہ پر توكل كرتا ہے تو اللہ اس كو كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہيگا، اللہ تعالى نے ہر چي زكا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 – 3 ).
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كے حالات كو درست فرمائے، اور آپ دونوں كو اپنى اطاعت و فرمانبردارى پر جمع كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب