جس بيوى كا نكاح ہو چكا ہو اور خاوند نے اس سے دخول نہيں كيا اگر وہ زنا كر لے تو اس كا حكم كيا ہے ؟
يعنى اس كى شادى ہو چكى ہے ليكن ابھى وہ اپنے والد كے گھر ميں ہى ہے اور اس كى رخصتى نہيں ہوئى اسے خاوند نہيں چھوا نہيں، كيا اس كى سزا رجم ہے يا كہ كوڑے ؟
احصان ( يعنى شادى شدہ زانى ) كى حالت ميں زنا كرنے پر رجم كى سزا مرتب ہونے والى شروط
سوال: 120913
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
زنا كبيرہ گناہ اور فحش كام ہے، زنا زانى سے ايمان كا نام سلب كر ليتا ہے، اور اسے عذاب و ذلت و رسوائى ميں ڈال ديتا ہے، ليكن اگر وہ توبہ كر لے تو سب معاف ہو جائيگا.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور تم زنا كے قريب بھى مت جاؤ يقينا يہ بہت فحش كام اور برا راہ ہے الاسراء ( 32 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جب زانى زنا كرتا ہے تو وہ مومن نہيں ہوتا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2475 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ).
اور نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:
” جب آدمى زنا كرتا ہے تو اس سے ايمان نكل جاتا ہے اور وہ اس پر سائے كى مانند ہوتا ہے، جب زنا ختم كردے تو وہ واپس لوٹ آتا ہے ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4690 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2625 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ بھى بتايا كہ قبر ميں زانيوں كو عذاب ہوتا ہے، اور انہيں آگ كا عذاب ديا جاتا ہے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1320 ).
اس جرم كے قبيح اور شنيع ہونے كى بنا پر ہى اللہ سبحانہ و تعالى نے شادى شدہ ہونے كى حالت ميں زنا كا مرتكب ہونے كى سزا موت تك رجم كرنے كى سزا مقرر كى ہے، اور اگر غير شادى شدہ ہو يعنى كنوارہ ہو تو سو كوڑے اور ايك برس تك جلاوطنى كى سزا ہے.
كنوارے زانى كى سزا بيان كرتے ہوئے اللہ تعالى نے فرمايا ہے:
زانى عورت اور زانى مرد دونوں ميں سے ہر ايك كو سو كوڑے مارو، ان پر اللہ كى شريعت كى حد جارى كرتے ہوئے تمہيں ہرگز ترس نہ كھانا چاہيے النور ( 2 )
ليكن ( محصن ) شادى شدہ زانى كى سزا رجم ہے يعنى پتھر مار مار كر ہلاك كر دينا جيسا كہ مسلم شريف كى درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” مجھ سے لے لو، مجھ سے لے لو، اللہ سبحانہ و تعالى نے ان عورتوں كے ليے راہ نكال دى ہے، كنوارہ كنوارى ( سے زنا كرے تو ) اسے سو كوڑے اور ايك برس تك جلاوطن كيا جائيگا، اور شادى شدہ شادى شدہ عورت ( كے ساتھ زنا كرے ) تو سو كوڑے اور رجم ہو گا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1690 ).
الثيب: محصن يعنى شادى شدہ كو كہتے ہيں، چاہے وہ مرد ہو يا عورت.
اور المحصن: وہ آزاد بالغ اور عاقل شخص ہے جو صحيح نكاح ميں وطئ كرے.
صرف نكاح چاہے اس سے خلوت بھى ہوئى ہو سے محصن نہيں ہو جائيگا، اس ميں فقھاء كرام كا كوئى اختلاف نہيں، بلكہ وطئ اور مجامعت ضرورى ہے، يعنى نكاح كے بعد اگر مجامعت كرنے كے بعد كوئى زنا كرے تو وہ محصن كہلائيگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اہل علم كا اجماع ہے كہ رجم صرف محصن شادى شدہ كو ہى كيا جائيگا.
اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ہے:
” جو شادى شدہ ہو اور زنا كرے اس كو رجم كرنا حق ہے ”
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كسى بھى مسلمان شخص كا خون بہانا جائز نہيں، مگر تين اسباب ميں سے ايك كى بنا پر: يا پھر وہ شادى شدہ ہونے كے بعد زنا كرے ”
احصان كى سات شرطيں ہيں:
پہلى شرط:
عورت كى شرمگاہ ( قبل ) ميں وطئ كرنا.
اس شرط ميں كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” شادى شادہ شادى شدہ كے بدلے سو كوڑے اور رجم ہے ”
اور ثيابۃ: يعنى شادى شدہ ہونا قبل ميں وطئ سے حاصل ہوتا ہے، اس ليے اسا كا معتبر ہونا ضرورى ہے، اور اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جماع كے بغير نكاح سے محصن ہونا ثابت نہيں ہوتا، چاہے اس ميں خلوت بھى ہوئى ہو، يا قبل كے بغير وطئ ہوئى ہو يا دبر ميں وطئى ہوئى ہو يا پھر كچھ نہ ہوا ہو تو اسے محصن نہيں كہا جائيگا؛ كيونكہ اس سے عورت ثيب نہيں ہوتى، اور نہ ہى وہ كنوارہ پن سے خارج ہوتى ہے، جن كى حد سو كوڑے اور ايك برس جلاوطنى ہے، اس ليے كہ حديث ميں يہى وارد ہے.
اور وطئ ميں يہ ضرورى ہے كہ حشوہ يعنى عضو تناسل كا اگلا حصہ عورت كى شرمگاہ ميں غائب اور داخل ہو؛ كيونكہ يہ وطئ كى حد ہے جس كے ساتھ وطئ كے احكام كا تعلق ہے.
دوسرى شرط:
وہ نكاح ميں ہو؛ كيونكہ نكاح كو احصان كا نام ديا جاتا ہے؛ اس دليل فرمان بارى تعالى ہے:
اور شادى شدہ عورت .
يہاں محصنات كا لفظ بولا گيا ہے، اہل علم ميں كوئى اختلاف نہيں كہ زنا اور وطئ شبہ سے وطئ كرنے والا محصن يعنى شادى شدہ شمار ہو، اور نہ ہى ہمارے علم ميں ہے كہ لونڈى سےوطئ كرنے والا شادى شدہ كہلاتا ہو، اس كے متعلق كوئى اختلاف نہيں؛ كيونكہ يہ نكاح نہيں، اور نہ ہى اس سے نكاح كے احكام ثابت ہوتے ہيں.
تيسرى شرط:
وہ نكاح صحيح ہو، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، جن ميں عطاء، قتادہ، مالك، شافعى، اور اصحاب الرائى شامل ہيں.
چوتھى شرط:
آزادى، ابو ثور رحمہ اللہ كےعلاوہ باقى سب اہل علم كے ہاں يہ شرط پائى جاتى ہے.
پانچويں اور چھٹى شرط:
بلوغت، اور عقل،اگر بچے اور مجنون نے وطئ كر لى اور پھر بالغ يا عقلمند ہو گيا تو وہ محصن شمارنہيں ہو گا، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، اور امام شافعى كا مسلك بھى يہى ہے.
ساتويں شرط:
وطئ كى حالت ميں ان دونوں ميں كمال پايا جائے، وہ اسطرح كہ عقلمند اور آزاد مرد عقلمند اور آزاد عورت سے وطئ كرے، امام ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب كا قول يہى ہے.
اور امام مالك كہتے ہيں: اگر ان دونوں ميں سے ايك كامل ہو تو وہ محصن ہو گا، ليكن بچہ نہيں جب وہ كسى بڑى عورت سے وطئ كرے تو وہ اسے محصن نہيں كريگا ” انتہى مختصرا.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 41 ).
اور مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 2 / 224 ) بھى ديكھيں.
اس سے علم ہوا كہ جس بيوى كے ساتھ نكاح ہو چكا ہے اور خاوند نے اس سے جماع اور وطئ نہيں كى اور وہ عورت زنا كر لے تو اس كى سزا كوڑے ہيں، نہ كہ رجم، كيونكہ ابھى وہ محصن نہيں ہوئى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب