مجھ سے ايك نوجوان نے وعدہ كيا كہ يونيورسٹى سے فارغ ہو كر مناسب ملازمت ملنے كے فورا بعد مجھ سے شادى كريگا، اس عرصہ ميں ہم ايك دوسرے سے رابطہ ميں رہے، اس نے ميرے بارہ ميں اپنے گھر والوں كو بھى بتا ديا، ليكن مناسب ملازمت كى تلاش ميں مشغول ہونے كى بنا پر ميرا رشتہ نہ طلب كر سكا، اسى عرصہ ميں ميرے ليے ايك اور نوجوان كا رشتہ آيا ہے كيا ميں اپنا وعدہ توڑ كر اس رشتہ كو قبول كر لوں يا نہ كروں ؟
ايك نوجوان نے شادى كا وعدہ كيا اور ايك دوسرے شخص كا رشتہ آيا ہے كيا دوسرے شخص كا رشتہ قبول كر لے
سوال: 121786
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
كسى بھى لڑكى كے ليے كسى اجنبى مرد كے ساتھ تعلقات قائم كرنا جائز نہيں، چاہے اس نے منگنى كا وعدہ كيا ہو يا شادى كرنے كا وعدہ كر ركھا ہو، كيونكہ يہ تعلقات حرام امور پر مشتمل ہوتے ہيں مثلا ايك دوسرے كو ديكھنا، اور مصافحہ كرنا اور دل ميں محبت پيدا ہو جانا، اور نرم رويہ سے كلام كرنا يہ سب اللہ سبحانہ و تعالى نے حرام كيا ہے.
دوم:
اگر كسى ايسے نوجوان كا رشتہ آيا ہے جس كا دين اور اخلاق اچھا اور پسند ہے تو آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے استخارہ كرے اور اس رشتہ كو قبول كر ليں، اور آپ اس وعدہ كى طرف التفات مت كريں، كيونكہ بہت سارے لوگ اپنے وعدہ كو پورا نہيں كرتے، يہ تو اس صورت ميں ہے كہ اگر فرض كريں كہ وہ لوگ نيك و صالح ہوں، يا پھر حرام تعلقات سے توبہ كر ليں.
پھر اس وعدہ كو احترام اور وفاء كى نظر سے اس صورت ميں ديكھا جائيگا جب وہ بالفعل آپ كا رشتہ طلب كرے، ليكن ابھى تك اس نے آپ كا رشتہ طلب ہى نہيں كيا، اور اسے ابھى تك ملازمت ہى نہيں ملى، اور وہ امكانات ہى نہيں ہيں جو اسے اس كے اہل بنائيں.
يہ حكمت نہيں يا پھر يہ عقل مندى نہيں كہ آپ ايك غير معروف مدت اور عرصہ تك انتظار كرتى رہيں.
امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: جس نے آپ كو كسى غائب كى طرف ٹرانسفر كيا تو اس نے آپ كے ساتھ انصاف نہيں كيا.
نماز استخارہ كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 11981 ) اور (2217 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اصل يہ ہے كہ جس منگيتر كا دين و اخلاق پسند ہو ا سكا رشتہ رد نہيں كيا جائيگا؛ كيونكہ حديث ميں وارد ہے كہ:
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب تمہارے پاس كسى ايسے شخص كا رشتہ آئے جس كا دين اور اخلاق تمہيں پسند ہو تو تم اس سے ( اپنى لڑكى كى ) شادى كر دو اگر ايسا نہيں كرو گے تو زمين ميں وسيع و عريض فساد بپا ہو جائيگا ”
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1084 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
جب اس شخص نے آپ كا رشتہ طلب كيا تو پہلے شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ آپ كا رشتہ طلب كرے، ہاں يہ ہے كہ اگر وہ شخص اسے اجازت دے دے يا پھر آپ كا رشتہ چھوڑ دے؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كوئى بھى شخص اپنے بھائى كى منگنى پر منگنى نہ كرے حتى كہ وہ چھوڑ دے يا پھر اسے منگنى كى اجازت دے دے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4848 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1412 ).
اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو ثابت قدمى كى توفيق دے، اور نيك و صالح خاوند اور اولاد عطا فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات