بعض طلباء سوال كرتے ہيں كہ: مشكل مضامين جنہيں وہ سمجھ نہيں سكتے كيا وہ ٹيچروں سے سكول كے باہر معاوضہ دے كر پڑھ سكتے ہيں؟
يہ علم ميں رہے كہ اس ميں طلباء كا اصرار ہوتا ہے، اور كيا اگر وہ طالب علم اسى ٹيچر كے پاس سكول ميں بھى پڑھتا ہو تو كيا حكم بدل جائے گا ؟
اور كيا يہ مندرجہ ذيل فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كے منافى ہے؟
( ہر مسلمان پر طلب علم فرض ہے ) ؟
0 / 0
5,24725/06/2006
ٹيچر كا سكول سے باہر طلباء كو ٹوشن پڑھانا
سوال: 12332
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس ميں كوئى حرج نہيں كہ طالب علم كلاس روم ( اور سكول ) كے باہر استاد سے تعاون حاصل كرے، اور استاد اسے وہ مضامين سمجھائے اور پڑھائے جو سكول ميں پڑھائے جاتے ہيں، اس سے كوئى فرق نہيں پڑتا چاہے مدرس وہى ہو يا كوئى اور.
ليكن جب سكول كى تعليمات اور نظام اس سے منع كريں تو طالب علم كو اس كاالتزام كرنا چاہيے، ليكن اگر سكول يا مدرسہ كى تعليمات اور نظام ميں ممانعت نہ ہو تو پھر مدرسين كے ليے فارغ وقت ميں پڑھانا صحيح ہے چاہے وہ گھر ميں پڑھائيں يا مسجد ميں اس ميں كوئى حرج نہيں.
ماخذ:
ديكھيں: كتاب مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ لفضيلۃ الشيخ علامہ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ جلد ( 8 ) صفحہ ( 279 )