كيا رشتہ داروں كے مطالبہ كى بنا پر دوسرے شہروں سے رشتہ داروں كے آنے تك ميت كے دفن ميں تاخير كرنى جائز ہے ؟
رشتہ داروں كے انتظار ميں ميت كے دفن ميں كتنى تاخير كى جا سكتى ہے
سوال: 12386
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ميت كے دفن ميں تاخير كرنى جائز نہيں، ليكن ضرورت كى بنا پر يعنى تجھيز و تكفين كى ضروريات پورى كرنے يا رشتہ داروں اور پڑوسيوں كے آنے كے انتظار ميں تاخير كى جا سكتى ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ يہ تاخير عرف سے زيادہ لمبى نہ ہو، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جنازہ كے ساتھ جلدى كرو”
اسے امام مالك نے روايت كيا ہے، اور مسند احمد ( 2 / 240 ) اور صحيح بخارى ( 2 / 87 – 88 ).
اور اس كے ليے ماتم اور قناتيں وغيرہ لگانا جائز نہيں، جسے تعزيت وغيرہ كا نام ديا جاتا ہے، اور جو شخص نماز جنازہ ميں شريك نہ ہو سكا ہو وہ اس كى قبر پر نماز جنازہ ادا كرسكتا ہے، اگر وہ اسى شہر ميں، اور قبر پر نماز جنازہ دو ماہ تك ادا كيا جا سكتا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام سعد رضى اللہ تعالى عنہا كى قبر پر دفن كرنے كے ايك ماہ بعد نماز جنازہ ادا كى تھى .
ماخذ:
ديكھيں: اللجنۃ الدائمۃ للبحوث ( 355 )