ايك دوست كا سوال ہے كہ: اس كا والد سودى بنك ميں ملازم ہے اور ريٹائر ہونے كے قريب ہے، اور اسے بنك كے مال سے ريٹائمنٹ كے موقع پر كچھ رقم دى جائے گى، تو اس رقم كا حكم كيا ہے ؟
اور ريٹائرمنٹ كے بعد حاصل ہونے والى پنشن كا حكم كيا ہے؟ ( يہ علم ميں رہے كہ اسے ماہانہ پنشن اجتماعى انشورنس ادا كرے گى، جو كہ ملازمت والى كمپنى – ہمارى موجودہ حالت ميں وہ بنك ہے – وہ بنك كے ذريعہ ملازم كى تنخواہ ميں سے اجبارى طور پر كچھ تنخواہ كاٹتے رہے تا كہ ريٹائرمنٹ كے بعد پنشن دى جائے ؟
بنك ملازمين كو ريٹائر منٹ پر ملنے والى رقم
سوال: 12397
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ميں نے اپنے شيخ اور استاد عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے سودى بنك سے ريٹائرمنٹ پر ملنے والى رقم كے متعلق دريافت كيا تو انہوں نے مجھے جواب ديا:
اس كے ليے اس مدت كے مقابلہ ميں لينا جائز ہے جس ميں اسے حرمت كا علم نہيں تھا اور اس نے سودى بنك ميں ملازمت كى، اور حرمت كا علم ہونے كے بعد والى مدت كا معاوضہ لينا جائز نہيں.
مثلا: فرض كريں كہ اس نے تيس برس بنك ميں ملازمت كى اور اسے بيس برس تك حرمت كا علم نہ ہوا، پھر اسے حكم كا علم ہوا اور وہ دس برس اور ملازمت كرتا رہا، تو اس كے ليے بيس برس كى رقم لينى جائز ہے، اور آخرى دس برس كى نہ لے.
اور اولاد كے بارہ ميں گزارش ہے كہ: اگرچہ ان كے والد كى كمائى حرام ہے ليكن ان كے ليے اپنے والد كے مال سے ضرورت كے مطابق رقم لينى حلال ہے، كيونكہ ان كا نان و نفقہ والد پر واجب ہے، اور حرام كمائى كا گناہ والد كے ذمہ ہے، ليكن وہ اسے نصيحت كريں اور رقم لينے ميں فراخ دلى سے كام نہ ليں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد