باوجود اس كے كہ گھر ميں عورت كى نماز افضل ہے اگر وہ بھى گھر يا مسجد ميں نماز باجماعت ادا كرے تو كيا اسے بھى مرد كى طرح وہى اجرو ثواب حاصل ہو گا، اور كيا اگر وہ گھر ميں انفرادى نماز ادا كرتى ہے تو ستائيس درجہ ثواب حاصل ہو گا؟
نماز ميں عورت باقى عورتوں كى امامت كرواسكتى ہے اس كى كيا دليل ہے، اس طرح كہ وہ اسى صف ميں كھڑى ہو گى نہ كہ مردوں كى طرح صف كے آگے ؟
عورتوں كى امام كہاں كھڑى ہو گى، اور گھر ميں عورت كى نماز كى افضليت
سوال: 12451
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ سوال دو شقوں پر مشتمل ہے:
پہلى شق:
گھر ميں عورت كى نماز كى افضليت:
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت اس پر دلالت كرتى ہے كہ عورت كے ليے گھر ميں نماز ادا كرنا افضل ہے، چاہے كوئى بھى جگہ ہو مكہ يا كوئى اور علاقہ، اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:
" اللہ كى بنديوں كو اللہ تعالى كى مساجد ميں نماز ادا كرنے سے مت روكو، اور ان كے گھر ان كے ليے بہتر ہيں "
آپ نے يہ فرمان مدينہ ميں جارى كيا تھا، حالانكہ مسجد نبوى ميں نماز ادا كرنا بہت زيادہ افضل ہے، اور اس ليے بھى كہ عورت كا گھر ميں نماز ادا كرنا زيادہ پردے كا باعث اور فتنہ و فساد سے دور ہے، وہ اپنے گھر ميں نماز ادا كرے تو يہ زيادہ بہتر اور اولى ہے"
ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 1 / 207 ).
اور مزيد تقصيل جاننے كے ليے آپ سوال نمبر ( 3457 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
نماز باجماعت ميں اجروثواب كى زيادتى مردوں كے ساتھ خاص ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك عورت سے فرمايا تھا:
" مجھے علم ہے كہ تم ميرے ساتھ نماز ادا كرنا پسند كرتى ہو….. اور تيرى تيرے گھر ميں نماز ادا كرنا تيرا اپنى قوم كى مسجد ميں نماز ادا كرنے سے بہتر ہے …. "
مسند احمد مسند باقى الانصار حديث نمبر ( 25842 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 337 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
دوسرى شق:
اگر عورت امامت كروائے تو وہ عورتوں كے درميان كھڑى ہوگى اس كى دليل:
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اسى طرح عورتوں كى امامت كروانے والى كے ليے ہر حالت ميں عورتوں كے درميان كھڑا ہونا مسنون ہے، كيونكہ وہ سب كى سب پردہ ہيں.
ديكھيں: المغنى ( 1 / 347 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" سنت يہ ہے كہ عورت كى امام كروانے و الى ان كے وسط اور درميان ميں كھڑى ہو گى، اس كى دليل عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے كہ انہوں نے عورتوں كى امامت كروائى اور وہ ان كے وسط ميں كھڑى ہوئيں "
ديكھيں: المجموع شرح المھذب ( 4 / 192 ).
اور " اگر عورتيں نماز باجماعت ادا كريں تو ان كى امام عورت ان كے وسط ميں كھڑى ہو گى، كيونكہ اس ميں زيادہ ستر اور پردہ ہے، اور پھر عورت سے تو بقدر استطاعت پردہ اور ستر مطلوب ہے، اور يہ معلوم ہے كہ عورت كا عورتوں كے درميان كھڑا ہونا ان كے سامنے كھڑا ہونے سے زيادہ پردہ اور ستر ہے اس كى دليل عائشہ اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ہے:
" وہ دونوں جب امامت كرواتيں تو ان كى صف ميں كھڑى ہوتيں "
يہ صحابيہ كا فعل ہے، جب اس كى مخالفت ميں كوئى نص نہيں تو صحيح يہى ہے كہ يہ حجب ہے، اور عورت ايك عورت كے ساتھ ہو تو وہ ايك مرد كے ساتھ كھڑا ہونے كى طرح ہى عورت كے پہلو ميں كھڑى ہو گى "
ديكھيں: الشرح الممتع لابن عثيمين ( 4 / 387 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات