بعض ملازمين دفترى كام كے علاوہ اپنے ذاتى كام كى بنا پر دفتر سے غائب ہو جاتے ہيں، اور اپنے افسر سے اجازت طلب كرنے كے ليے اطمنان بخش يا غير تسلى بخش عذر گھڑتے ہيں، اگر اس كے افسر كو اس عذر كے صحيح نہ ہونے كا علم ہو تو كيا ملازم كو اجازت اور چھٹى دينے كى موافقت كرنے كا گناہ ہو گا ؟
كيا مدير ہير پھير كرنے والے ملازم كو رخصت دينے كى موافقت كر لے
سوال: 12489
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسى محكمہ كے افسر يا ادارہ كے مدير يا اس كے قائم مقام كے ليے كسى ايسى چيز كى موافقت كرنا جائز نہيں جس كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ غير صحيح ہے، بلكہ اسے چاہيے كہ صرف انتہائى ضرورت كى بنا پر ہى اجازت دے، اور اس اجازت كى بنا پر كام ميں خلل بھى نہ آتا ہو، تو پھر اجازت دينے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن جن عذروں كے متعلق اسے علم ہو كہ يہ صحيح نہيں بلكہ بناوٹى ہيں يا ان كے متعلق غير صحيح اور باطل ہونے كا ظن غالب ہو تو افسر اپنے ماتحت كو اجازت نہ دے، اور نہ ہى اس اجازت كى موافقت ہى كرے، كيونكہ يہ امانت ميں خيانت ہے، اور جس نے اسے ذمہ دارى دى ہے اس كى بھى خير خواہى نہيں، اور نہ ہى اس ميں مسلمانوں كى خير خواہى ہوتى ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تم ميں سے ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس كى رعايا اور ذمہ دارى كے متعلق باز پرس كى جائے گى”
اور يہ ڈيوٹى اس كى گردن ميں امانت بھى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
بلاشبہ اللہ تعالى تمہيں امانتيں امانت والوں كو واپس كرنے كا حكم ديتا ہے النساء ( 85 ).
اور مومنوں كى صفت ميں اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور وہ لوگ جو اپنى امانتوں اور معاہدوں كى پاسدارى اور ديكھ بھال كرتے ہيں المؤمنون ( 8 ).
اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اللہ تعالى اور اس كے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) ( كے حقوق ) كى جانتے ہوئے خيانت نہ كرو، اور نہ ہى اپنى امانتوں ميں خيانت كرو الانفال ( 27 ).
ماخذ:
كتاب مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ لسماحۃ الشيخ العلامۃ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ ( 9 / 438 )