رمضان المبارك ميں ايك رات مسجد كا ايك نائب امام نماز پڑھانے لگا اور نماز وتر ميں اس نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا وسيلہ اور واسطہ دے كر دعا مانگى، يہ شخص علم شرعى ميں ممتمكن نہيں بلكہ عامى ہے، ليكن اس ميں خير و بھلائى پائى جاتى ہمارا خيال تو يہى ہے ليكن ہم اللہ پر كسى كو پاك نہيں سمجھتے.
جب يہ شخص دعائے قنوت كر رہا تھا اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وسيلہ اور واسطہ سے دعا كرنے لگا تو اس رات كچھ نوجوانوں كى جانب سے شور اٹھا كہ يہ شخص مشرك ہے اور اس كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز نہيں.
اس فتوى كى وجہ سے دوسرى رات پھر يہى مشكل پيدا ہو گئى كہ جب اس امام نے نماز وتر پڑھانا شروع كى تو ان نوجوانوں نے اس كے پيچھے نماز ادا نہ كى بلكہ مسجد كے پچھلے حصہ ميں اپنى عليحدہ وتر كى جماعت كروائى تو كيا ان كا يہ فعل صحيح ہے، اور كيا محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ اور وسيلہ سے امام كے دعا كرنے كى بنا پر امام كو مشرك كہا جا سكتا ہے ؟
اور اگر امام اس طرح كے معاملہ ميں غلطى كر بيٹھے تو كيا لوگوں كو حق حاصل ہے كہ وہ اس سے عليحدہ ہو جائيں اور دوسرى جماعت كروانا شروع كر ديں حالانكہ اسى وقت وہ امام بھى جماعت كروا رہا ہو، اور اس سلسلہ ميں آپ امام اور اس سے عليحدہ ہونے والوں اور باقى مقتديوں كو كيا نصيحت كرينگے ؟
نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا وسيلہ اور واسطہ طلب كرنے والے امام پر مشرك ہونے كا حكم لگا كر اس كے پيچھے نماز ادا كرنا ترك كر دي
سوال: 125339
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ان لوگوں نے امام كا نبى كے وسيلہ سے دعا كرنے كى بنا پر امام پر مشرك كا حكم لگا كر جلد بازى سے كام ليا ہے اور صحيح نہيں كيا، اور اس كا يہ معنى بھى نہيں كہ امام نے صحيح كيا ہے، بلكہ يہ امام كى غلطى تھى اور اس نے ايك بدعت كا ارتكاب كيا ہے، ليكن اس كے مقابلہ نے نوجوانوں نے بھى جو كچھ كيا وہ بھى صحيح نہيں، انہوں نے اس كے فعل كو شرك نہيں كہا بلكہ اس سے آگے بڑھ كر انہوں نے اس پر حكم لگاتے ہوئے اسے مشرك قرار ديا اور اس كے نتيجہ ميں اس كے پيچھے نماز ادا كرنا چھوڑ دى، حالانكہ ان پر واجب يہ ہوتا تھا كہ وہ اس پر مطلقا حكم لگانے ميں جلدى نہ كرتے بلكہ اہل علم سے رجوع كرتے اور لوگوں كو كافر كہنے كى جرات نہ كرتے.
مشروع توسل اور وسيلہ كى كئى ايك اقسام ہيں ہم نے يہ اقسام سوال نمبر ( 979 ) كے جواب ميں بيان كى ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صالحين كے واسطہ اور وسيلہ سے دعا كرنا شرك نہيں، بلكہ اس ميں زيادہ سے زيادہ يہ كہا جا سكتا ہے كہ يہ شرك كا ايك وسيلہ ہے، كيونكہ يہ بذاتہ شرك تو نہيں ليكن شرك كى طرف لے جاتا ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” ليكن اگر كوئى شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وسيلہ سے مانگے اور كہے كہ ميں تجھ سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے مقام اور مرتبہ اور واسطہ سے مانگتا ہوں تو جمہور علماء كے ہاں يہ بدعت اور ايمان ميں نقص ہے، اور وہ مشرك نہيں ہو گا، اور نہ ہى كافر ہو گا، بلكہ وہ مسلمان ہے ليكن يہ اس كے ايمان ميں نقص اور ضعف كا باعث ہے، جس طرح دوسرى معصيت و نافرمانى ہيں جو دين سے خارج نہيں كرتى؛ كيونكہ دعا اور دعاء كے وسائل توقيفى ہيں اور شريعت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ سے دعا كرنا ثابت نہيں، بلكہ يہ تو لوگوں كى ايجاد ہے.
اس ليے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ يا انبياء كے واسطہ يا نبى كے مقام اور انبياء كے مقام كا واسطہ دے كر يا كسى اور كے واسطے اور وسيلے سے دعا كرنا يا اہل بيت كے وسيلہ سے دعا كرنا يہ سب بدعات ميں شامل ہوتا ہے، اس كو ترك كرنا واجب ہے، ليكن شرك نہيں.
بلكہ يہ شرك كے وسائل ميں سے وسيلہ شمار ہوتا ہے، اس ليے ايسا كرنے والا مشرك نہيں، ليكن اس نے ايسى بدعت كا ارتكاب كيا ہے جس سے اس كے ايمان ميں كمى و نقص پيدا ہوا ہے اور ايمان كمزور ہو جاتا ہے جمہور اہل علم كا يہى مسلك ہے ”
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 7 / 129 – 130 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
” اگر كوئى انسان يہ كہتا ہے كہ اے اللہ مجھے فلاں كے واسطہ يا محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے واسطہ يا صالحين كے وسيلہ سے بخش دے، يا انبياء كے واسطے يا انبياء كى حرمت كے واسطے يا انبياء كى بركت يا صالحين كى بركت كے واسطے يا على كى بركت سے يا صديق يا عمر يا صحابہ كى بركت كے واسطے يا فلاں كے حق سے بخش دے تو يہ سب جائز نہيں اور مشروع كے مخالف اور بدعت ہے، اور يہ شرك نہيں ليكن بدعت ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ نے جو دعائيں مانگيں تھيں ان ميں يہ نہيں ہے، اور نہ ہى صحابہ كرام كى دعاؤں ميں ہے.
بلكہ اسے چاہيے كہ وہ ايسى چيز كو وسيلہ اور واسطہ بنائے جو مشروع ہے يعنى اللہ سبحانہ و تعالى كے اسماء اور اس كى صفات، اور اس كى توحيد اور اس كے ليے كے گئے خالص اعمال اور نيك و صالح اعمال يہ وسيلہ جائز ہے….
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 1 / 356 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ ان لوگوں امام پر مشرك ہونے كا جو حكم لگايا ہے وہ صحيح نہيں، بلكہ ان سے شرعى طور لحاظ سے بھى غلطى ہوئى ہے، اور امام كى جانب سے بھى غلطى ہوئى ہے، اس ليے انہيں اپنے اس فعل سے توبہ كرنا چاہيے،اور اپنے اس حكم پر نادم ہوں اور آئندہ ايسا مت كريں، اور امام سے اپنى غلطى كى معافى مانگيں.
دوم:
بدعتى امام كے پيچھے نماز ادا كرنا ـ چاہے آپ كا وہ امام اسى وسيلہ پر قائم رہے ـ تو اس كے پيچھے نماز ادا كرنا جائز ہے اگر يہ بدعت مكفرہ نہيں، ليكن اس كے باوجود امام كو سمجھانے اور ڈرانے كے ليے اس كے پيچھے نماز چھوڑ كر كسى اور مسجد كو چھوڑ كر كسى اور مسجد ميں نماز ادا كرنا جائز ہے، اگر وہ اس طرح كى بدعت سے باز آ جائے، اور ايك ہى مسجد ميں اس كے پيچھے نماز چھوڑ كر اپنى عليحدہ جماعت كرانى جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے پيچھے جماعت چھوڑ كر گھر ميں نماز پڑھنى جائز ہے، بلكہ اس كے پيچھے نماز چھوڑنے كى شرط يہ ہے كہ اگر اسے چھوڑنے ميں فائدہ ہو اور كسى اور مسجد ميں جا كر نماز ادا كرنے ميں كوئى فائدہ ہو تو پھر ايسا كيا جائے.
ہم نے يہ مسئلہ تفصيل كے ساتھ سوال نمبر ( 20885 ) اور (40147 ) كے جوابات ميں بيان كيا ہے اس كا مطالعہ ضرور كريں.
سوم:
امام كو ہمارى يہ نصيحت ہے كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كا خوف اور تقوى اختيار كرے اور اپنا اعتقاد اور عبادت صحيح كرے، اور بدعتيوں والے كام چھوڑ دے، اور اہل سنت والجماعت اور صحابہ كرام كا طريقہ اختيار كرے.
اور ان عليحدہ ہونے والوں كو ہمارى يہ نصيحت ہے كہ وہ اس فتوى كى جرات پر توبہ كريں كہ انہوں نے يہ فتوى جارى كرنے ميں جرات سے كام ليا ہے، اور اس امام پر مشرك ہونے كا حكم لگايا ہے، وہ اس امام سے معذرت كريں، اور واپس اس كى مسجد ميں نماز امام كے پيچھے باجماعت نماز ادا كريں، اور ان كے ليے حلال نہيں كہ وہ ايك ہى وقت ميں دوسرى جماعت كرائيں يعنى دونوں جماعتيں اكٹھى ہوں، اور انہيں اخلاق فاضلہ اختيار كرنا چاہيے، اور لوگوں كو حق كى دعوت دينے ميں مرحلہ وال دعوت كا اہتمام كريں، كيونكہ حق ثقيل اور بھارا ہوتا ہے، اور اكثر مسلمان ممالك ميں اسے عجيب و غريب سمجھا جاتا ہے.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں حق كو حق ديكھنے اور اس كى اتباع كرنے كى توفيق نصيب فرمائے، اور ہميں باطل كو باطل سمجھنے اور اس سے دور رہنے كى توفيق دے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات