چاليسواں منانے كى اصل حقيقت كيا ہے، اور كيا مردے كے اوصاف اور محاسن بيان كرنے كے مشروعيت ميں كوئى دليل ہے ؟
چاليسواں منانا فرعونى عادت ہے
سوال: 12552
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
اس كى اصل حقيقت يہ ہے كہ يہ فرعونى عادت ہے، اسلام سے قبل فراعنہ كے ہاں يہ معروف تھا، اور پھر ان سے دوسروں ميں عام ہوا اور پھيلا اور ان كے علاوہ دوسروں ميں بھى سرايت كر گيا، اور يہ ايك ايسى منكر بدعت ہے جس كى دين اسلام ميں كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى.
اور اس كى ترديد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان بھى كرتا ہے:
” جس نے بھى ہمارے اس معاملے( يعنى دين ) ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے”
اس حديث كے صحيح ہونے پر اتفاق ہے.
دوم:
آج كے دور ميں موجودہ طريقہ پر ميت كے اوصاف اور محاسن بيان كرنے اور اس كے اجتماع كرنا ميت كى مدح ثنائى ميں غلو اور ناجائز ہے، اس كى دليل مسند احمد، ابن ماجۃ، كى مندرجہ ذيل حديث ہے جسے امام حاكم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح قرار ديا ہے:
عبد اللہ بن ابى عوفى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرثيہ خوانى سے منع فرمايا ”
اور اس ليے بھى كہ ميت كے اوصاف ذكر كرنا غالب طور پر فخر ہے، اور اس سے غم كى تجديد ہوتى اور حزن زيادہ ہوتا ہے، ليكن ميت كو ذكر كرتے وقت صرف اس كى تعريف كرنا، يا اس كے جنازہ كے گزرتے وقت اس كى اچھائى بيان كرنا، يا اس كى پہچان كے ليے اس كے جليل القدر اور اچھے كام بيان كرنا وغيرہ يہ اس رثاء اور مرثيہ كے مشابہ ہے جو بعض صحابہ نے شھداء احد وغيرہ كے بارہ بيان كيے تھے تو يہ جائز ہے، اس كى دليل مندرجہ ذيل حديث ہے:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ: ايك جنازہ كے پاس سے گزرے تو اس كى اچھائى بيان كى گئى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” واجب ہو گئى”
پھر ايك اورجنازہ كے پاس سے گزرے تو لوگوں نے اس كے بارہ باتيں اچھيں نہ كيں بلكہ برى كيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” واجب ہو گئى”
تو عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا: كيا چيز واجب ہو گئى ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
” آپ لوگوں نے اس كى اچھائى بيان كى اورتعريف كى تو اس كے ليے جنت واجب ہو گئى، اور اس كے بارہ آپ لوگوں نے برائى بيان كى تواس كے ليے آگ واجب ہو گئى، تم زمين ميں اللہ تعالى كے گواہ ہو”
اسے بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے روايت كيا ہے.
ماخذ:
مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ فضيلۃ الشيخ بن باز رحمہ اللہ تعالى ( 13 / 398 )