کیا میں صدقہ خیرات اور زکاۃ اپنی زیر تعلیم بہنوں اور گھر کے خرچے میں دے سکتی ہوں؟
کیا صدقہ خیرات اور زکاۃ اپنی زیر تعلیم بہنوں اور گھر کے خرچے میں دے سکتی ہوں؟
سوال: 125720
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر صدقہ خیرات سے مراد نفلی صدقہ ہے تو یہ آپ اپنی بہنوں کو اور گھر کے خرچے میں دے سکتی ہیں؛ کیونکہ صدقہ میں بہت سی چیزیں شامل ہیں۔
اور اگر صدقہ خیرات سے مراد زکاۃ ہے تو پھر اس میں قدرے تفصیل ہے:
1- بہن بھائی اگر غریب ہوں اور آپ پر ان کا خرچ واجب بھی نہ ہو تو انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے، کیونکہ آپ ان کی وارث نہیں ہیں، یا آپ ان کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی ہوں۔
اسی طرح بہن بھائیوں پر اگر قرضہ ہو تو انہیں زکاۃ دی جا سکتی ہے، چاہے ان کا خرچ آپ پر واجب ہو یا نہ ہو؛ کیونکہ قرضے کی ادائیگی خرچہ برداشت کرنے والے کے ذمہ نہیں ہوتی۔
نیز شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے سگے بہن بھائی کو زکاۃ دینے سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
" اگر تو آپ کے زکاۃ دینے کی وجہ سے آپ پر واجب کردہ چیز ساقط ہوتی ہو مثلاً اس كا نفقہ آپ پر واجب ہے، اور آپ اسے زکاۃ دیں تا کہ اس پر خرچ کرنے سے اپنا مال بچا سکیں تو یہ جائز نہیں؛ کیونکہ زکاۃ مال کے بچاؤ کا ذریعہ نہیں ہو سکتی، اور اگر آپ کے زکاۃ دینے سے واجب کردہ چیز ساقط نہیں ہوتی مثلاً آپ کے ذمہ اس كا خرچہ واجب ہی نہیں تھا، کیونکہ آپ اس کے وارث نہیں ہیں یا یہ کہ اپنے خاندان کے ساتھ آپ اس پر بھی خرچ کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے، یا وہ قرض کی ادائیگی کی استطاعت نہیں رکھتا تو اس قرض كو ادا کرنے کیلئے آپ اسے اپنی زکاۃ دے سکتے ہیں، بلکہ یہ کسی دوسرے كو دینے سے افضل اور بہتر ہے؛ کیونکہ اسے دینا ایک تو صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی ہے"
دیکھیں: مجموع فتاوى ابن عثیمین ( 18 / 422 – 423 )
مزید کیلئے سوال نمبر: (50739) کا جواب ملاحظہ کریں۔
دوم:
شرعی علوم کے حاصل کرنے کیلئے سارا وقت دینے والے طالب علم کو زکاۃ دی جا سکتی ہے؛ کیونکہ حصول علم بھی جہاد ہی کی ایک قسم ہے، اس لئے یہ "فی سبیل اللہ" کے زمرے میں آئے گا۔
جبکہ دنیاوی طالب علم "فی سبیل اللہ" کے زمرے میں نہیں آتا، تاہم اسے بھی غربت اور تنگ دستی کی بنیاد پر زکاۃ دی جا سکتی ہے، چنانچہ اگر مستقبل میں ملازمت کے حصول کیلئے اپنی درسی ضروریات پوری نہیں کر پاتا تو اسے تعلیم مکمل کرنے کیلئے زکاۃ دی جا سکتی ہے، اسی طرح اس کا قرضہ بھی زکاۃ کی مد سے ادا کیا جا سکتا ہے، مثلاً: اس پر تعلیمی ادارے کا قرض ہو، تو قرضہ چکانے کیلئے اسے رقم دی جا سکتی ہے۔
مزید فائدے کیلئے آپ سوال نمبر: (121181) اور (95418) کا مطالعہ کریں۔
سوم:
گھریلو اخراجات پورے کرنے کیلئے زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی۔
تاہم اگر آپ کا خاوند تنگ دست ہے، اور زکاۃ کا مستحق بھی ہے تو آپ اسے اپنی زکاۃ دے سکتی ہو، بعد میں وہ خود جہاں مرضی خرچ کرے، چاہے گھریلو اخراجات میں ہی کیوں نہ خرچ کرے، پھر اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات