جب خريدار اور تاجر كا سودا طے ہوجائے اور خريدار اس كا بيعانہ بھي ادا كردے اور بعد ميں وہ چيز نہ خريدے تو كيا بائع كوبيعانہ واپس نہ كركےخود ركھنےكا حق حاصل ہے ؟
بيعانہ والي بيع كا حكم
سوال: 12580
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
جي ہاں ايسا كرنا بائع كا حق ہے، اور عمر رضي اللہ تعالي كا بھي يہ فعل ہے اور امام احمد رحمہ اللہ تعالي كا مسلك بھي يہي ہے.
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:
( علماء كرام كےصحيح قول كےمطابق جب خريدار اور فروخت كنندہ بيعانہ پر متفق ہوں اور بيع پوري نہ ہو تو بيعانہ لينے ميں كوئي حرج نہيں ) اھ
ديكھيں: فتاوي للتجار ورجال الاعمال صفحہ نمبر ( 49 ) .
اور مستقل فتوي كميٹي كا فتوي ہےكہ:
( بيعانہ والي بيع جائز ہے، وہ يہ كہ خريدار فروخت كرنےوالے يا اس كے وكيل كو سودا طے ہونے كےبعد مال كي قيمت ميں سے كچھ حصہ بطورضمانت بيعانہ ادا كرے تا كہ كوئي اور اسے نہ لےسكےاگر وہ يہ چيز لےگا تويہ قيمت ميں شمار ہوگا اور اگر چيز نہ لےتو يہ فروخت كرنےوالا ركھ لے، اس طرح بيعانہ لينا صحيح ہےچاہے قيمت كي ادائيگي كا وقت مقرر ہو يا مقرر نہ ہو، اور بائع كوشرعي حق حاصل ہے كہ وہ سودا طے ہوجانےاور خريدي ہوئي چيز قبضہ ميں كرلينےپر خريدار سے قيمت كا مطالبہ كرے .
بيعانہ كےجواز كي دليل عمربن خطاب رضي اللہ تعالي عنہ كا فعل ہے، امام احمد رحمہ اللہ تعالي بيعانہ كےمتعلق كہتےہيں: اس ميں كوئي حرج نہيں، ابن عمر رضي اللہ تعالي عنھما سے مروي ہےكہ انہوں نےاس كي اجازت دي ہے، اور سعيد بن مسيب، ابن سيرين كا كہنا ہےكہ: جب اسےيہ ناپسند ہوكہ خريدي ہوئي چيز واپس كرےگا اور اس كےساتھ كوئي چيز واپس كرے تواس ميں كوئي حرج نہيں.
اورجوحديث بيان كي جاتي ہےكہ: ( نبي كريم صلي اللہ عليہ نے بيعانہ كي بيع سے منع فرمايا ) يہ حديث صعيف ہے امام احمد وغيرہ نے اسے ضعيف قرار ديا ہے لھذا يہ قابل حجت نہيں ) اھ
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 133 )
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب