ایک شخص آخری تشہد کے لئے نماز میں بیٹھا اور تشہد کے الفاظ بھول گیا، تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے؟
آخری تشہد بھول گیا اور سلام پھیر دیا۔
سوال: 125897
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
آخری تشہد پڑھنا اور آخری تشہد میں بیٹھنا نماز کے دو الگ الگ رکن ہیں، ان کے بغیر نماز صحیح نہیں ہو گی۔
چنانچہ "زاد المستقنع" میں نماز کے ارکان بیان کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں: "آخری تشہد پڑھنا اور بیٹھنا [بھی نماز کے ارکان میں شامل ہیں]"
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس کی شرح میں کہتے ہیں:
"مصنف نے کہا: آخری تشہد پڑھنا، یہ نماز کا دسواں رکن ہے، اس کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہم پر تشہد فرض ہونے سے پہلے ہم کہا کرتے تھے: السلام على الله من عباده ، السلام على جبرائيل وميكائيل ، السلام على فلان وفلان [اس حدیث کو دارقطنی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے] )اس حدیث میں دلیل یہ ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ کہہ رہے ہیں کہ تشہد فرض ہونے سے پہلے ہم یہ کہا کرتے تھے۔
اگر کوئی اعتراض کرنے والا کہے کہ: تو پھر پہلے تشہد کے بارے میں کیا کہیں گے؟ وہ بھی تو تشہد ہے! لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ سہو کے ساتھ پہلے تشہد کی کمی کو پورا کیا ہے، حالانکہ سجدہ سہو کے ذریعے کمی صرف واجبات کی ہوتی ہے، تو پھر آخری تشہد بھی پہلے تشہد کی طرح ہوا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ہم یہ کہیں گے کہ: نہیں؛ بات ایسے نہیں ہے اس لیے کہ اصل یہ ہے کہ دونوں تشہد ہی فرض ہیں، تاہم پہلا تشہد سنت سے ثابت شدہ عمل کی بنا پر فرضیت سے خارج ہو گیا؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے تشہد کی کمی کو سجدہ سہو کر کے پورا فرمایا، اس لیے آخری تشہد اپنی اصلی کیفیت یعنی رکنیت پر باقی رہا۔
مصنف کا یہ کہنا کہ: "تشہد کے لئے بیٹھنا" تو یہ نماز کا گیارہواں رکن ہے، یعنی آخری تشہد کے لئے نماز میں بیٹھنا رکن ہے، چنانچہ اگر بالفرض کوئی شخص سجدے سے سیدھے کھڑے ہو کر قیام کی حالت میں تشہد پڑھے تو یہ کفایت نہیں کرے گا؛ کیونکہ اس نے ایک رکن ترک کر دیا ہے اور وہ ہے تشہد کے لئے بیٹھنا، اس لیے اس پر قعدہ [تشہد کے لئے بیٹھنا]ضروری ہے، نیز تشہد کو لازمی طور پر اسی کے دوران پڑھنا ہے؛ کیونکہ مصنف نے اس قعدہ کو تشہد کی اضافت کے ساتھ ہی ذکر کیا ہے؛ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ تشہد بھی لازمی طور پر قعدہ کے دوران ہی پڑھنا ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (3/309)
دوم:
نماز کے ارکان میں سے کوئی رکن اگر نمازی بھول جائے تو اس بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ اس رکن کو بجا لائے وگرنہ اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"ارکان بھی واجب ہوتے ہیں بلکہ واجبات سے بھی زیادہ تاکید رکھتے ہیں، تاہم ارکان اور واجبات میں تفریق اس طرح ہو سکتی ہے کہ واجبات سہو کی بنا پر ساقط ہو جاتے ہیں اور ان کی کمی سجدہ سہو کے ذریعے پوری ہو سکتی ہے جبکہ ارکان ساقط نہیں ہوتے؛ اسی لیے جس شخص کا کوئی رکن رہ جائے تو اس کی نماز رکن کے بغیر نہیں ہو گی۔"
ایک اور مقام پر کہتے ہیں:
" ارکان سجدہ سہو کی وجہ سے پورے نہیں ہوتے اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جس وقت نماز ظہر یا عصر میں دو رکعتیں ادا کر کے سلام پھیر دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چھوٹ جانے والی بقیہ نماز کو پورا فرمایا اور سجدہ سہو بھی کیا، تو اس سے معلوم ہوا کہ ارکان سہو کی بنا پر ساقط نہیں ہوتے، انہیں بجا لانا ضروری ہوتا ہے۔" ختم شد
"الشرح الممتع" (3 /315، 323)
اس بنا پر:
جو شخص آخری تشہد بھول کر سلام پھیر دے تو اگر سلام پھیرے ہوئے زیادہ وقت نہیں گزرا تو وہ بیٹھ جائے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیرے، اور پھر سجدہ سہو کرے اور پھر دوبارہ سلام پھیرے، لیکن اگر سلام پھیرے ہوئے زیادہ وقت گزر جائے تو نماز دوبارہ دہرائے گا۔
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب