ميرى چھ برس قبل شادى ہوئى تھى اور مادہ منويہ ميں سپرم كمزور ہونے كى وجہ سے اولاد نہيں ہوئى، اس كے علاج كے ليے ايك طويل عرصہ دركار ہے، ايك برس قبل ميرى بيوى مجھے چھوڑ كر ميكے چلى گئى تھى، اور اچانك مجھے معلوم ہوا كہ بيوى نے ميرے خلاف خلع كا دعوى دائر كر ديا ہے كہ ميں بانجھ ہوں اور وہ اولاد پيدا كرنا چاہتى ہے، ميرے ليے اس ميں كوئى مانع نہيں ليكن ميں نے اسے چاليس ہزار ريال مہر ديا ہے، اور منگنى كے وقت سات ہزار ريال كى انگوٹھى دى تھى جس كى بنا پر مجھے مقروض ہونا پڑا اور بنك سے قرض بھى ليا تا كہ ميں رہائش كى صحيح كر سكوں كيونكہ وہ قديم طرز كا بنا ہوا تھا اور رنگ بھى كروانا پڑا اور بيت الخلاء وغيرہ بھى نئے لگوانے پڑے، اور اب تك ميں وہ قرض ادا كر رہا ہوں جو پچاس ہزار ريال ہے تو كيا مجھے حق ہے كہ اگر ميں اس سے خلع كرتا ہوں تو اس سے يہ سارے اخراجات دينے كا مطالبہ كروں اور پھر خلع كروں ؟
نامرد خاوند سے خلع كا مطالبہ كرنے كى صورت ميں خاوند كا مہر واپس كرنا
سوال: 126269
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
فقھاء كرام كا ان اسباب ميں اختلاف ہے جس كى بنا پر نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہوتا ہے، اور راجح يہى ہے كہ ہو وہ سبب جس سے نكاح كا مقصد ہى فوت ہو جائے وہ عيب شمار ہوتا ہے ”
اس بنا پر اولاد پيدا كرنے كى صلاحيت نہ ركھنا اور بانجھ ہونا عيب شمار ہوتا ہے، جب بھى بيوى كو علم ہو جائے كہ اس كا خاوند بانجھ ہے اولاد پيدا كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتا تو اسے نكاح فسخ كرنے كا حق حاصل ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اور صحيح يہى ہے كہ ہر وہ عيب شمار ہوتا ہے جس سے نكاح كا مقصد فوت ہو جائے، اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ نكاح كے اہم مقاصد ميں اولاد پيدا كرنا، اور خدمت اور نفع حاصل كرنا ہے، لہذا جب كوئى ايسا سبب پايا جائے جو اس ميں مانع ہو تو وہ عيب شمار ہو گا، اس بنا پر اگر بيوى خاوند كو بانجھ پائے، يا خاوند اپنى بيوى كو بانجھ پائے تو يہ عيب ہے ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 220 ).
اور مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 43496 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور جب بيوى كى جانب سے خاوند كے بانجھ ہونے كى وجہ سے نكاح فسخ كيا جائے، اور فسخ نكاح دخول يعنى رخصتى كے بعد ہو تو بيوى پورا مہر لے گى، اور وہ چاليس ہزار ريال مہر اور سات ہزار ريال منگنى والى انگوٹھى بھى ركھے گى اور آپ كو واپس لينے كا مطالبہ كرنے كا كوئى حق نہيں، كيونكہ اس حالت ميں نكاح فسخ كرنا اس كا شرعى حق ہے، اور يہ خلع كا محتاج نہيں.
اور آپ نے جو رہائش وغيرہ پر خرچ كيا تھا وہ اپنے اختيار سے تھا اس ليے وہ آپ كے ذمہ ہے، اور اس كا بھى آپ مطالبہ كرنے كا حق نہيں ركھتے.
دوم:
اور اگر بيوى كو عيب كا علم ہو جائے اور وہ اس پر راضى ہو تو اس كا فسخ نكاح كا حق ساقط ہو جاتا ہے، ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ اس كى رضا صريح ہو، نہ كہ خاوند كو راضى ركھنے اور اوپر سے رضامندى كى بنا پر.
زاد المستقنع ميں ہے:
” اور جو عيب پر راضى ہو جائے، يا پھر اس كے علم ہونے كے بعد اس كى رضا كى دليل مل جائے تو پھر اس كو كوئى اختيار حاصل نہيں ” انتہى
چنانچہ اگر آپ كى بيوى كو آپ كى حالت كا علم ہو چكا تھا اور اس كے بعد اس نے كہا كہ وہ اس پر راضى ہے اور وہ آپ كے ساتھ رہنے پر راضى ہے، تو اس طرح فسخ نكاح كا حق ساقط ہو جاتا ہے، اور اگر بعد ميں وہ آپ سے عليحدگى چاہے تو پھر وہ آپ سے خلع كريگى، اور اس صورت ميں آپ كو حق حاصل ہے كہ آپ خلع ميں شرط ركھيں كہ وہ اپنا سارا مہر يا اس كا كچھ حصہ چھوڑے يا پھر مہر سے بھى زيادہ رقم ادا كرے، ليكن آپ نے جو اسے ديا ہے اس سے زيادہ نہيں لينے چاہيے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” انسان كو اللہ كا تقوى و ڈر اختيار كرنا چاہيے، اگر عورت كى جانب سے غلطى ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں كہ خاوند جو چاہے طلب كرے، ليكن اگر غلطى اور كوتاہى خاوند ميں ہو، اور اس كوتاہى كى وجہ سے اس كے ساتھ نہيں رہنا چاہتى تو پھر اسے كچھ تخفيف كرنى چاہيے اور اس پر ہى اكتفا كر لے جو آسانى سے ميسر ہو.
پھر يہاں غنى و مالدار اور فقير و تنگ دست عورت ميں بھى فرق ہے، اس كا بھى خاوند كو خيال ركھنا چاہيے ” انتہى
ديكھيں: لقاء الباب المفتوح ( 8 / 25 ).
مزيد آپ المغنى ابن قدامۃ ( 7 / 247 ) كا بھى مطالعہ كريں.
اللہ تعالى سب كو اپنى رضا و خوشنودى كے عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات