كيا كسي شخص كےليےيہ ممكن ہےكہ جب وہ كوئي چيزنقد دس ريال ميں فروخت كرتا ہے تو جب خريدار تيس دنوں كےبعد قيمت دينے كا كہے تووہ قيمت زيادہ كردے، مثلا: جب كوئي چيز نقد ميں دس ريال كي فروخت كي جا رہي ہو اورجب خريدار رقم تيس دن كےبعد دينا چاہےتو كيا بائع اسي چيز كےگيارہ ريال مانگ سكتا ہے، آپ سے گزارش ہے كہ سودي معاملات كي روشني ميں اس كي وضاحت كريں ؟
ادھار ميں موجودہ قيمت سےزيادہ فروخت كرنے كا حكم
سوال: 12638
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سامان مدت تك كےليے ( ادھار ) موجودہ قيمت سے زيادہ قيمت ميں فروخت كرنا جائز ہے، چاہے اس كي قيمت ايك قسط ميں يا كئي ايك قسطوں ميں وقت مقررہ پر ادا كي جائے، ليكن شرط يہ ہےكہ بائع اور مشتري بيع كي نوع اور قسم كي تعيين كرنے سےقبل جدا نہ ہوئے ہوں اور اس كےنقد يا ادھار پر متفق ہوئےہوں.
اور زيادہ قيمت سود نہيں، اورشرع ميں كوئي ايسي نص نہيں جس ميں مدت تك كي بيع ميں زيادہ لينے كي كوئي حد مقرر ہو، ليكن رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے خريدوفروخت ميں اورفيصلہ كرنےاور كروانےميں معاف كرنے پرابھارا ہے.
فتوي اللجنۃ الدائمۃ
ديكھيں: كتاب فتاوي اسلاميۃ ( 2 / 335 ) .
ليكن مثلا اگراس نے وہ چيز دس ميں فروخت كردي اور پھر خريدار نے قيمت ادا كرنے ميں دير كرنا چاہي تو فروخت كرنےوالے كےليے اس پر زيادہ كرنا جائز نہيں، اور اگر وہ مدت زيادہ كرنے كےمقابلے ميں قيمت ميں اضافہ كرتا ہے تو يہ سود اور حرام و كبيرہ گناہ ہےاللہ تعالي سےسلامتي كےطلبگار ہيں.
مزيد تفصيل كےليے سوال نمبر (1231 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد
متعلقہ جوابات