ميرے ليے ايك بااخلاق اور دينى رشتہ آيا اور جب مجھے شرعى طور پر ديكھنے كى بارى آئى توم يرے ميرے والد نے ميرے منگيتر كو كہا كہ بچى ميٹرك كے بعد اپنى تعليم مكمل كريگى، منگيتر كا جواب تھا كہ اگر شرعى تعليم ہوئى تو كوئى مانع نہيں.
ليكن عقد نكاح كے وقت كوئى شرط اندراج نہيں كى گئى كيونكہ ہمارے ہاں شروط نہ لكھنے كا رواج ہے، جس پر منگنى كے وقت اتفاق ہو جائے اسے دوبارہ ذكر كرنے كى ضرورت نہيں رہتى.
شادى كے بعد كوئى ايسى يونيورسٹى ميسر نہ آ سكى جس ميں اختلاط نہ ہو، اب كئى برس كے بعد ايك يونيورسٹى ملى ہے جہاں شرعى شروط كے مطابق تعليم دى جاتى ہے ميں وہاں داخلہ لينا چاہتى ہوں، كيا ميرے خاوند كو مجھے حصول تعليم سے منع كرنے كا حق حاصل ہے ؟
اور كيا اگر ميں تعليم حاصل كروں تو تعليمى اخراجات ميرے خاوند كے ذمہ ہيں يا نہيں ؟ اور اگر ميں خود تعليمى اخراجات برداشت كروں تو كيا امتحانى سينٹر تك پہچانے كا خاوند ذمہ دار ہوگا، امتحانى سينٹر گھر سے تقريبا آدھ گھنٹہ كى مسافت پر ہے ؟
منگنى كے وقت تعليم مكمل كرنے كى شرط ركھى جائے تو كيا تعليمى اخراجات خاوند كے ذمہ ہونگے ؟
سوال: 126389
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
عقد نكاح يا عقد نكاح سے قبل ركھى گئى شرط خاوندكو پورا كرنا ہوگى؛ كيونكہ رسول كريم صلى كا فرمان ہے:
” تمہارے ليے سب سے زيادہ وہ شرطيں پورىكرنے كا حق ركھتى ہيں جن كے ساتھ تم نے شرمگاہيں حلال كى ہيں “
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2721 ) صحيح مسلمحديث نمبر ( 1418 ).
اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلمكا فرمان ہے:
” مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں، مگروہ شرطيں جو كسى حلال كو حرام كريں، يا پھر كسى حرام كو حلال كر ديں “
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1352 ) سنن ابو داودحديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” آخرى بات يہ كہ نكاح ميں شروط تين قسموںميں منقسم ہونگى:
پہلى قسم:
وہ شروط جن كا پورا كرنا ضرورى ہے، يہ وہ شرطيںہيں جن كا فائدہ عورت كو ہوتا ہو، مثلا خاوند اسے اس كے گھر يا علاقے يا شہر سےكہيں دوسرى جگہ نہيں لے جائيگا، يا وہ دوسرى شادى نہيں كريگا… ان شروط كو پوراكرنا لازم ہے، اگر خاوند يہ شرط پورى نہ كرے تو بيوى كو فسخ نكاح كا حق حاصل ہے.
عمر بن خطاب اور سعد بن ابى وقاص اور معاويہ اورعمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہم سے يہى قول مروى ہے ” انتہى
ديكھيں: المغنى ( 9 / 483 ).
اس بنا پر جب آپ كے منگيتر كو بتايا گيا كہ آپميٹرك كے بعد اپنى تعليم مكمل كرنا چاہتى ہيں، اگر اس سے يہ مراد تھا كہ وہ آپ كوتعليم حاصل كرنے كى اجازت دے اور اس ميں ركاوٹ نہ ڈالے تو پھر خاوند كو يہ شرطپورا كرنا ہوگى.
اور اگر اس سے مراد يہ تھا كہ وہ تعليم حاصل كرنےكى اجازت بھى دے اور اس كے اخراجات بھى برداشت كرے تو خاوند پر اخراجات اور تعليممكمل كرنا دونوں لازم كيے جائيں گے.
ليكن يہ مدنظر ركھنا ہوگا كہ آيا اس نے فرى تعليمحاصل كرنے پر موافقت كى تھى، يا كہ اس وقت معين اخراجات كے ساتھ.
اس ليے ہمارى تو يہى نصيحت ہے كہ اس سلسلہ ميںخاوند اور بيوى دونوں كو افہام و تفہيم سے كام ليتے ہوئے كوئى سمجھوتہ كرنا چاہيے،اور اس وقت شرط پر جس طرح اتفاق ہوا تھا اسے پورى كرنا واجب ہے، اس سلسلہ ميںخاوند اور بيوى دونوں كو ہى ايك دوسرے كا تعاون كرنا چاہيے.
رہا مسئلہ بيوى كو امتحانى سينٹر تك پہنچانا كسكے ذمہ ہے، اگر تو يہ شرط ميں شامل نہيں تھا تو خاوند پر لازم نہيں، بلكہ بيوىاپنے بھائى يا والد وغيرہ دوسرے محرم شخص كے ساتھ امتحان دينے جا سكتى ہے، يا پھركسى سہيلى كے ساتھ چلى جائے.
ليكن ہم خاوند كو نصيحت كرتے ہيں كہ وہ اس ميںشدت اور سختى سے كام مت لے، بلكہ بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرتے ہوئے تعاون كرے، تاكہ دونوں ميں الفت و محبت اور مودت قائم ہو.
واللہ اعلم
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب