ميرا سوال خلع كے متعلق ہے، ميں نے ايك عالم دين اور دو گواہوں كے سامنے اپنے خاوند سے خلع ليا ہے، اور چھ ماہ كے بعد ہم نے فيصلہ كيا كہ دوبارہ نيا نكاح كر ليں، دو برس كے بعد ميں نے دوبارہ خلع حاصل كر ليا، اس كے بعد ميرے خاوند نے مجھ سے وعدہ كيا كہ وہ ميرے ساتھ بہتر معاملہ سے پيش آئيگا اور ہمارے ليے ايك دوسرے كا آپس ميں مل جانا ضرورى ہے كيونكہ ہمارا بچہ بھى ہے.
ميرا سوال يہ ہے كہ: كيا خلع طلاق شمار ہوتا ہے، اور كيا اس كامعنى يہ ہوا كہ اب ميرے ليے ايك طلاق باقى بچى ہے ؟
اور كيا ہم ايك بار ايك دوسرے سے دوبارہ مل سكتے ہيں اور اس كا طريقہ كيا ہو گا كيا نيا نكاح كيا جائيگا؟
برائے مہربانى اس كى وضاحت كريں، اور اگر آپ كچھ اور معلوم كرنا چاہيں تو بھى مجھے بتائيں تا كہ ميں وہ بھى آپ كے علم ميں لا سكوں.
خلع طلاق شمار نہيں ہوتا چاہے طلاق كے الفاظ ميں ہو
سوال: 126444
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
راجح قول يہى ہے كہ خلع طلاق شمار نہيں ہوتى چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہو، اس كى تفصيل ذيل ميں پيش كى جاتى ہے:
1 ـ جب خلع طلاق كے الفاظ ميں نہ ہو اور نہ ہى اس سے طلاق كى نيت كى گئى ہو تو اہلم علم كى ايك جماعت كے ہاں يہ فسخ نكاح ہے، اور قديم مذہب ميں امام شافعى كا يہى قول ہے اور حنابلہ كا بھى مسلك يہى ہے، اس كے فسخ ہونے كى بنا پر اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى سے دو بار خلع كر ليا تو اسے نيا نكاح كر كے رجوع كا حق حاصل ہے اور وہ طلاق شمار نہيں ہو گى.
اس كى مثال يہ ہے كہ: خاوند بيوى كو كہے ميں نے اتنى رقم كے عوض تجھ سے خلع كيا، يا اتنے مال پر ميں نے نكاح فسخ كيا.
2 ـ ليكن اگر خلع طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو مثلا ميں نے اپنى بيوى كو اتنے مال كے عوض ميں طلاق دى تو جمہور اہل علم كے قول ميں يہ طلاق شمار ہوگى "
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 237 ).
اور بعض علماء كہتے ہيں كہ يہ بھى فسخ نكاح ہى ہوگا، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا، يہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا اور كہا ہے:
يہ قدماء صحابہ كرام رضى اللہ تعالى عنہم اور امام احمد رحمہ اللہ سے بيان كردہ ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 393 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ليكن راجح قول يہ ہے كہ: يہ ( يعنى خلع ) طلاق نہيں چاہے يہ خلع صريح طلاق كے الفاظ سے واقع ہو، اس كى دليل قرآن مجيد كى آيت ہے فرمان بارى تعالى ہے:
يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں پھر يا تو اچھائى سے روكنا يا پھر عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے البقرۃ ( 229 ).
يعنى دونوں بار يا تو اسے ركھيں يا پھر چھوڑ ديں يہ معاملہ آپ كے ہاتھ ميں ہے.
اس كے بعد فرمايا:
اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گےتو عورت رہائى پائے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں ان دونوں پر گناہ نہيں يہ اللہ كى حدود ہيں خبردار ان سے آگے مت نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدود سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).
تو يہ تفريق فديہ شمار ہو گى پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:
پھر اگر اس كو ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے سوا دوسرے سے نكاح نہ كرے البقرۃ ( 230 ).
اس ليے اگر ہم خلع كو طلاق شمار كريں تو فرمان بارى تعالى: " اگر وہ اسے طلاق دے دے " يہ چوتھى طلاق ہوگى، اور يہ اجماع كے خلاف ہے، اس ليے فرمان بارى تعالى: اگر اس نے اسے طلاق دے دى يعنى تيسرى طلاق تو " اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے "
اس آيت سے دلالت واضح ہے، اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا كہنا ہے: ہر وہ تفريق جس ميں عوض و معاوضہ ہو وہ خلع ہے طلاق نہيں، چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، اور راجح قول بھى يہى ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 467 – 470 ).
اور شيخ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" چنانچہ ہر وہ لفظ جو معاوضہ كے ساتھ تفريق پر دلالت كرتا ہو وہ خلع ہے چاہے وہ طلاق كے الفاظ سے ہى ہو، مثلا خاوند كہے ميں نے اپنى بيوى كو ايك ہزار ريال كے عوض طلاق دى، تو ہم كہيں گے يہ خلع ہے، اور عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى مروى ہے:
ہر وہ جس ميں معاوضہ ہو وہ طلاق نہيں "
امام احمد كے بيٹے عبد اللہ كہتے ہيں:
ميرے والد صاحب خلع ميں وہى رائے ركھتے جو عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہ كى رائے تھى، يعنى يہ فسخ نكاح ہے چاہے كسى بھى لفظ ميں ہو، اور اسے طلاق شمار نہيں كيا جائيگا.
اس پر ايك اہم مسئلہ مرتب ہوتا ہے:
اگر كوئى انسان اپنى بيوى كو دو بار علحيدہ عليحدہ طلاق دے اور پھر طلاق كے الفاظ كے ساتھ خلع واقع ہو جائے تو طلاق كے الفاظ سے خلع كو طلاق شمار كرنے والوں كے ہاں يہ عورت تين طلاق والى يعنى بائنہ ہو جائيگى، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح نہيں كر ليتى.
ليكن جو علماء خلع كو طلاق شمار نہيں كرتے چاہے وہ طلاق كے الفاظ ميں ہى ہوا ہو تو يہ عورت اس كے ليے نئے نكاح كے ساتھ حلال ہوگى حتى كہ عدت ميں بھى نكاح كر سكتى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.
ليكن اس كے ساتھ ساتھ ہم خلع كرنے والوں كو يہ نصيحت كرتے ہيں كہ وہ يہ نہ كہيں كہ ميں نے اپنى بيوى كو اتنى رقم كے عوض طلاق دى، بلكہ وہ كہيں ميں نے اپنى بيوى سے اتنى رقم كے عوض خلع كيا؛ كيونكہ ہمارے ہاں اكثر قاضى اور ميرے خيال ميں ہمارے علاوہ بھى يہى رائے ركھتے ہيں كہ يہ خلع اگر طلاق كے الفاظ كے ساتھ ہو تو يہ طلاق ہوگى.
تو اس طرح عورت كو نقصان اور ضرر ہوگا، اگر اسے آخرى طلاق تھى وہ بائن ہو جائيگى، اور اگر آخرى نہ تھى تو اسے طلاق شمار كر ليا جائيگا " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 450 ).
اس بنا پر اگر آپ اپنى بيوى سے رجوع كرنا چاہتے ہيں تو پھر نيا نكاح ضرورى ہے، اور آپ دونوں پر طلاق شمار نہيں كى جائيگى.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب