ميرى ايك سہيلى كو اسكے خاوند نے موبائل ميسج كے ذريعہ ايك طلاق دى، اس كے بعد ايك رشتہ دار نے اس سے رابطہ كيا تا كہ اس سے مشكل دريافت كر سكے كہ كس بنا پر اسے طلاق دى ہے تو خاوند اور غصہ ميں آ گيا اور كہنے لگا اسے دوسرى اور تيسرى بھى طلاق.
يہ علم ميں رہے كہ اس نے يہ سب كچھ عقل و ہوش ميں رہتے ہوئے كيا، اور اس كے بعد ٹيلى فون كر كے كہنے لگا ميں بيوى سے رجوع كرنا چاہتا ہوں، ليكن اسے كہا گيا كہ اب كوئى موقع نہيں رہا كيونكہ اس نے تين طلاقيں دے دى ہيں.
اس ان دونوں خاوند اور بيوى كا آپس ميں رجوع كرنا اور بھى ضرورى ہو گيا ہے كيونكہ طلاق كے وقت بيوى تقريبا سات ماہ كى حاملہ تھى، اور اب بچے كى ولادت ہو چكى ہے، كيا يہ تين طلاق شمار ہونگى يا كہ ايك طلاق مانى جائيگى ؟
اور كيا اس كے ليے رجوع كا امكان پايا جاتا ہے ؟
ايك بار طلاق دے كر رجوع كر ليا اور عدت ميں دو بار طلاق دى
سوال: 126549
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
فقھاء كرام كا اختلاف ہے كہ اگر ايك ہى بار دو يا تين طلاق دى جائيں تو وہ كتنى طلاق شمار ہونگى، راجح يہى ہے كہ وہ ايك ہى طلاق شمار ہوگى، چاہے اس نے ايك كلمہ ميں طلاق دى ہو يعنى كہا ہو: تجھے تين طلاق " يا پھر اس نے عليحدہ عليحدہ طلاق كے الفاظ بولے ہوں يعنى تجھے طلاق تجھے طلاق تجھے طلاق، يا پھر جيسا كہ سوال ميں ہے: اسے دوسرى اور تيسرى طلاق، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى اختيار كيا ہے، اور شيخ سعدى رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے اسے راجح قرار ديا ہے.
انہوں نے صحيح مسلم كى درج ذيل حديث سے استدلال كيا ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ كے دور خلافت ميں دو برس تك تين طلاقوں كو ايك ہى شمار كيا جاتا رہا.
عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ فرمانے لگے: لوگ طلاق ميں معاملہ ميں جلدى بازى كا مظاہرہ كر رہے ہيں جس ميں ان كے ليے مہلت و انتظار تھا، اگر ہم ان پر اسے لاگو كرديں تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے ان پر لاگو كر ديا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).
ان علماء رحمہم اللہ نے اختيار كيا ہے كہ طلاق رجوع يا پھر عقد نكاح كے بعد واقع ہوتى ہے، اس ليے جس نے بھى اپنى بيوى كو ايك دن طلاق دى اور پھر پہلى طلاق كى عدت ميں ہى دوبارہ طلاق دى تو دوسرى طلاق واقع نہيں ہوگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ان سب مسائل ميں راجح قول يہى ہے كہ: تين طلاق بالكل نہيں ہيں، ليكن تين طلاق اس وقت ہونگى يا تو ان كے مابين رجوع يا پھر عقد ہو، وگرنہ تين طلاق واقع نہيں ہونگى، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا اختيار يہى ہے اور صحيح بھى يہى ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 94 ).
اس بنا پر جب خاوند نے دوسرى اور تيسرى طلاق پہلى طلاق كى عدت ميں دى جس ميں اس نے اپنى بيوى سے رجوع نہيں كيا تو پہلى طلاق ہى واقع ہوگى دوسرى اور تيسرى طلاق واقع نہيں ہوئى.
اور خاوند كو حق حاصل تھا كہ وہ اپنى بيوى سے عدت كے اندر اندر رجوع كر لے، ليكن وضع حمل كى وجہ سے عدت گزر چكى ہے اس ليے اب وہ نئے مہراور ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں نيا نكاح كر سكتا ہے، اور پہلى طلاق شمار ہو گى اور نيا نكاح كر لينے كى صورت ميں بھى اس كے ليے باقى دو طلاقوں كا حق رہےگا.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب