سوال: میں امام کیساتھ پہلے تشہد میں شامل ہوا، تو امام کیساتھ پہلے تشہد سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرونگا؟ حالانکہ میں امام کے آخری تشہد میں امام کیساتھ بیٹھوں گا، اور وہی میرے لیے پہلا تشہد تصور ہوگا، تو کیا میں دوبارہ پھر سے رفع الیدین کرونگا؟ یاد رہے کہ یہ چار رکعت والی نماز کا مسئلہ ہے۔
اسی طرح اگر میں امام کیساتھ صرف ایک رکعت پاتا ہوں، اور امام کیساتھ آخری تشہد بھی بیٹھوں گا، تو کیا امام کیساتھ آخری تشہد بیٹھنے کے بعد اٹھتے وقت رفع الیدین کرونگا؟ یا کہ میں اپنا پہلا تشہد بیٹھوں تو تب ہی رفع الیدین کرونگا؟
امام کیساتھ پہلے تشہد میں ملنے والا شخص تشہد سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کریگا؟
سوال: 126777
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
نماز میں رفع الیدین چار جگہوں پر ثابت ہے: تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے، رکوع سے اٹھتے ہوئے، اور دوسری رکعت سے اٹھنے کے بعد۔
صحیح بخاری: (739) میں نافع ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ : “جب عبد اللہ بن عمر نماز میں داخل ہوتے تو تکبیر کہتے ہوئے رفع الیدین کرتے، جب رکوع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جس وقت “سمع اللہ لمن حمدہ” کہتے تو رفع الیدین کرتے، اور جب دو رکعتوں سے کھڑتے ہوتے تب بھی رفع الیدین کرتے تھے، ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنے اس عمل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل کہتے تھے”
دوم:
امام کیساتھ تاخیر سے ملنے والے نمازی کی راجح موقف کے مطابق وہی اس کی نماز کا پہلا حصہ ہے، یہ موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جب تم اقامت سنو تو نماز کیلئے چلتے ہوئے پروقار، اور سکون سے چلو، دوڑ مت لگاؤ، چنانچہ جتنی جماعت پا لو، اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اسے پوری کر لو ) بخاری: (636) مسلم: (602)
نووی رحمہ اللہ “المجموع” (4/118) میں کہتے ہیں:
“ہم پہلے یہ ذکر کر چکے ہیں کہ مسبوق [نماز باجماعت میں تاخیر سے ملنے والا نمازی] امام کیساتھ جو نماز ادا کریگا وہی اس کی پہلی رکعت ہے، اور سلام کے بعد جو پوری کریگا وہی اس کی آخری نماز ہوگی، اس موقف کے قائلین میں سعید بن مسیب، حسن بصری، عطاء، عمر بن عبد العزیز، مکحول، زہری، اوزاعی، سعید بن عبد العزیز، اور اسحاق شامل ہیں، ان تمام کے موقف کو ابن المنذر نے نقل کرنے کے بعد کہا: “میں بھی اسی کا قائل ہوں” پھر انہوں نے کہا: “یہی موقف عمر، علی، ابو درداء سے بھی منقول ہے، لیکن پایۂِ ثبوت تک نہیں پہنچتا” یہی موقف مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے، اور داؤد بھی اسی کے قائل ہیں۔
جبکہ ابو حنیفہ ، مالک، ثوری، اور احمد وغیرہ اس بات کے قائل ہیں کہ جو نماز مسبوق نمازی نے پائی ہے وہ [اس کی آخری یعنی]امام والی نماز ہی ہے، اور جو سلام پھیرنے کے بعد مکمل کریگا وہ اس کی ابتدائی نماز ہے، یہ موقف ابن المنذر نے ابن عمر، مجاہد، اور ابن سیرین سے نقل کیا ہے، اور انکی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: (جو نماز تم پا لو اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اس کی قضا دے دو) بخاری و مسلم
ہمارے فقہائے کرام کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : (جو نماز تم پا لو اسے پڑھ لو، اور جو رہ جائے اسے پورا کر لو) اس روایت کو بخاری و مسلم نے متعدد طرق کیساتھ روایت کیا ہے۔
بیہقی کہتے ہیں کہ:
“جن راویوں نے “اسے پورا کر لو” کے الفاظ نقل کیے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے، اور انہوں نے راوی الحدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کیساتھ زیادہ وقت گزارا ہے، نیز انکا حافظہ دوسرے راویوں کے مقابلے میں زیادہ تیز تھا ، اس لیے ان کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی”
شیخ ابو حامد، اور ماوردی کہتے ہیں:
“کسی چیز کو پورا اسی وقت کیا جاتا ہے جب اس کا ابتدائی حصہ شروع ہو چکا ہوں، اور آخری حصہ ابھی باقی ہو، نیز ہمارے موقف کے مطابق بیہقی نے عمر بن خطاب، علی، ابو درداء، ابن مسیب، حسن، عطاء، ابن سیرین، اور ابو قلابہ رضی اللہ عنہم سے نقل کیا ہے”
جبکہ ” جو رہ جائے اس کی قضا دے دو ” والی روایت کا جواب دو انداز سے دیا جا سکتا ہے:
1- “اسے پورا کر لو” والی روایت کے راویوں کی تعداد زیادہ اور انکا حافظہ فریق ثانی کے راویوں سے زیادہ تیز ہے۔
2-” اس کی قضا دے دو ” قضا کا لفظ کسی کام کے مکمل کرنے پر محمول کیا جائے گا، نہ کہ فقہاء کی اصطلاح میں مشہور قضا پر ، کیونکہ قضا کا عرف عام کا معنی متاخرین فقہاء کی اصطلاح ہے، اور عرب قضا کا لفظ کسی چیز کے مکمل کرنے پر بھی بولتے ہیں، اس کیلئے شواہد قرآن مجید میں ہیں: فرمانِ باری تعالی ہے: ( فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ ) [یعنی جب تم اپنے حج کے ارکان مکمل کرلو]اور اسی طرح ( فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ )[یعنی: جب نماز مکمل کر لی جائے]
شیخ ابو حامد کہتے ہیں:
“اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو تمہاری اپنی نماز میں کمی رہ گئی ہے[اسے پورا کر لو] یہاں امام کیساتھ تمہاری باقیماندہ نماز مراد نہیں ہے، اور یہ بات یقینی ہے کہ مقتدی کی اپنی نماز آخر سے رہی ہے، ابتدا سے نہیں رہی”۔واللہ اعلم” انتہی
مندرجہ بالا تفصیل کی بنا پر :
اگر آپ امام کیساتھ چار رکعت والی نماز کے پہلے تشہد میں شامل ہوں تو امام کی تیسری رکعت آپ کیلئے پہلی رکعت شمار ہوگی، اور جب امام سلام پھیر دے تو آپ اپنی بقیہ نماز مکمل کرنے کیلئے کھڑے ہونگے ، لہذا آپکی سلام کے بعد والی رکعت تیسری ہوگی۔
اور جس وقت آپ امام کیساتھ آخری رکعت میں شامل ہوں ، تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد یہ آپکی دوسری رکعت ہوگی۔
ان تمام حالات میں آپ کیلئے رفع الیدین کرنا مستحب ہے یا نہیں؟ اس کا جواب درج ذیل ہے۔
امام کے سلام پھیرنے کے بعد آپ اگر تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہوتے ہیں تو یہاں رفع الیدین کرنے میں کوئی دقت ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ مندرجہ بالا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے مطابق رفع الیدین کرنے کی جگہ ہے۔
لیکن اس کے علاوہ صورتوں میں اہل علم کی رفع الیدین کرنے کے بارے میں مختلف آراء ہیں، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے تشہد سے تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہو نے کے بعد رفع الیدین کرنے کا سبب کیا ہے؟
چنانچہ کچھ علمائے کرام کہتے ہیں کہ تیسری رکعت کیلئے کھڑے ہونا اس کا سبب ہے، چنانچہ ان کے مطابق رفع الیدین اسی وقت ہوگا جب تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہوگا۔
جبکہ دیگر علمائے کرام کا کہنا ہے کہ تشہد سے قیام کیلئے کھڑے ہونا اس کا سبب ہے، تو ان کے مطابق تیسری رکعت کیلئے کھڑا ہو یا نا ہو جب بھی تشہد سے کھڑے ہوگا تو وہ رفع الیدین کریگا ، اس آخری قول کو شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے پسند کیا ہے۔
مزید کیلئے سوال نمبر: (21506) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات