0 / 0
7,07830/06/2010

كيا كافر جج يا يورپى عدالت كى طلاق واقع ہوگى

سوال: 127179

ميں اپنے خاوند كے ساتھ ايك يورپى ملك ميں رہائش پذير ہوں ميرا خاوند نشئ تھا اور چھ برس كى ازدواجى زندگى مشكلات اور لڑائى جھگڑے پر مشتمل رہى جو ناقابل برداشت تھى چنانچہ ميں نے طلاق كا مطالبہ كيا ليكن خاوند نے طلاق دينے سے انكار كر ديا.
لہذا مجھے عدالت كا سہارا لينا پڑا اور بالفعل طلاق ہو گئى اس معاملہ كو كئى برس بيت چكے ہيں، اب ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آيا يہ طلاق صحيح تھى يا نہيں ؟
اور اگر ميں نئے سرے سے اس كى بيوى بن كر واپس خاوند كے پاس جانا چاہوں تو كيا طريقہ ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر خاوند تباہى والے كام مثلا شراب نوشى يا نشہ كرنے پر اصرار كرے تو بيوى كے ليے خاوند سے طلاق طلب كرنا جائز ہے، اور اگر خاوند طلاق دينے سے انكار كر دے تو پھر شرعى عدالت ميں قاضى كے سامنے معاملہ پيش كيا جائے تا كہ وہ خاوند پر طلاق لازم كرے، يا پھر خاوند طلاق دينے سےانكار كرنے كى صورت ميں شرعى قاضى خود طلاق دے دے.

اور اگر شرعى عدالت اور شرعى قاضى نہ ہو تو پھر اس معاملہ كو اپنے علاقے ميں موجود اسلامى مركز اور اسلامك سينٹر ميں اٹھانا چاہيے تا كہ وہ خاوند كو طلاق دينے پر راضى كريں، يا پھر اسے خلع كى دعوت ديں، اور اس شرعى طلاق كے بعد ضرورت كى بنا پر اسے غير شرعى عدالت سے تصديق كرانا جائز ہے.

دوم:

جب آپ نے غير شرعى عدالت كا سہارا ليا اور عدالت نے خاوند كو طلاق دينے كا كہا تو خاوند نے طلاق كے الفاظ بولے يا پھر طلاق كى نيت سے طلاق كے الفاظ لكھ ديے تو طلاق واقع ہو گئى ہے.

اور اگر خاوند نے نہ تو طلاق كے الفاظ بولے اور نہ ہى طلاق كى نيت سے طلاق كے الفاظ لكھ كر ديے، بلكہ عدالت نے طلاق كا فيصلہ كر ديا تو كافر جج كى طلاق واقع نہيں ہوتى.

فقھاء كرام كا اتفاق ہے كہ قاضى كو مسلمان ہونا چاہيے جو مسلمانوں كے فيصلے كرے؛ كيونكہ قضاء ايك قسم كى ولايت ہے اور كافر شخص كسى مسلمان شخص كا ولى نہيں بن سكتا.

ابن فرحون رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" قاضى عياض رحمہ اللہ كا قول ہے: جن شروط كے بغير قضاء صحيح نہيں اور نہ ہى ولايت قائم ہو سكتى ہے وہ دس شرطيں ہيں:

اسلام، عقل، اور مرد، اور آزادى، اور بلوغت، اور عادل ہونا، اور علم، اور ايك ہونا، سماعت و بصارت والا ہونا اور گونگا نہ ہونا، پہلى آٹھ شرطيں تو ولى كے صحيح ہونے ميں ہيں اور آخرى تين شرطيں صحيح ہونے كے ليے شرط نہيں ليكن ان كے نہ ہونے كى صورت ميں اسے معزول كرنا واجب ہو جائيگا.

اس ليے بالاتفاق كافر كى ولايت صحيح نہيں، اور نہ ہى مجنون شخص كى " انتہى

ديكھيں: تبصرۃ الحكام ( 1 / 26 ) اور الموسوعۃ الفقھيۃ ( 33 / 295 ) كا بھى مطالعہ كريں.

فقھاء شريعت كمپليكس امريكہ كى دوسرى كانفرنس جو كوپن ہيگن ڈنمارك ميں رابطہ عالم اسلامي كے تحت 4 – 7 جمادى الاول 1425 ھـ الموافق 22 – 25 جون 2004 ميلادى ميں منقد ہوئى اس كا اختتامى بيان يہ تھا:

جب كسى ايسے ملك ميں جہاں اسلامى قوانين اور شرعى عدالتيں نہ ہوں اور كسى حق كو حاصل كرنا متعين ہو جائے يا پھر اپنے سے ظلم روكنا مقصود ہو تو غير شرعى عدالت سے رجوع كرنے كى اجازت ہے.

ليكن اس كے ليے شرط يہ ہے كہ شرعى علماء كرام سے اس سلسلہ ميں رجوع ضرور كيا جائے تا كہ اس موضوع كے بارہ ميں واجب كردہ شرعى حكم كو نافذ كيا جا سكے، اور دوسرى عدالتوں سے صرف مطالبہ اس كى تنفيذ كى سعى كى جائے.

اور اسى اختتامى بيان كے ساتويں بند ميں اسلامى ممالك سے باہر دوسرے ممالك كى سول كورٹس ميں جارى ہونے والى طلاق كے متعلق درج ہے:

جب مرد اپنى بيوى كو شرعى طلاق دے دے تو اس كے ليے ان غير شرعى عدالتوں سے طلاق توثيق كرانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن جب خاوند اور بيوى كا طلاق كے متعلق آپس ميں جھگڑا اور تنازع ہو تو پھر شرعى عدالت نہ ہونے كى صورت ميں قانونى كاروائى پورى كرنے كے بعد اسلامى مراكز شرعى عدالت كے قائم مقام ہونگے.

اور شادى كو ختم كرنے كے ليے صرف يہ قانونى كاروائى مكمل كرنے سے ہى شرعى طور پر شادى ختم نہيں ہوگى.

اس ليے جب عورت سول كورٹ سے طلاق حاصل كر لے تو وہ اسلامى مراكز جا كر اس طرح كے معاملات كا فيصلہ كرنے والے اہل علم سے رجوع كريں تا كہ شرعى طور پر اس معاملہ كو پورا كيا جا سكے.

مختلف جگہوں پر اسلامى مراكز ہونے كى وجہ سے اور ان سے رجوع كرنے ميں سہولت ہونے كى بنا پر اس سے انحراف نہيں كيا جا سكتا " انتہى.

اس بنا پر آپ كو اپنے علاقے كے اسلامى مركز يعنى اسلامك سينٹر سے رابطہ كرنا چاہيے وہ آپ كے اس معاملہ كو ديكھ كر فيصلہ كريں گے.

سوم:

جب عورت كو اپنے خاوند سے پہلى يا دوسرى طلاق ہو جائے اور اس كى عدت گزر جائے تو اس كے ليے اسى خاوند سے نئے مہر كے ساتھ ولى اور گواہوں كى موجودگى ميں نيا نكاح كرنا جائز ہے.

ليكن اگر اسے تيسرى طلاق ہو چكى ہو تو خاوند كے ليے اپنى مطلقہ عورت كے ساتھ نكاح كرنا جائز نہيں حتى كہ وہ عورت كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے اور يہ نكاح حلالہ نہ ہو، پھر وہ شخص اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے تو پہلے خاوند كے ليے اس سے نكاح كرنا جائز ہو جائيگا.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android