اگر انڈرويئر كو عام پيشاب كرتے وقت يا جلدى ميں پيشاب كا كوئى قطرہ لگ جائے تو كيا حكم ہو گا؟
1 – كيا اپنے آپ كو پاك كرنے كے ليے اس سے غسل كرنا لازم ہے ؟
2 – كيا مسلمان كو پورا انڈروئير دھونا چاہيے، يا كہ اسے تبديل كرنا ہوگا ( جب بھى پيشاب لگے ) يا پھر صرف پيشاب والى جگہ دھونى كافى ہے ؟
3 – اور وہ مسلمان شخص ( جس كے انڈروئير كو پيشاب كے قطرے لگے ہوں ) وہ نماز كس طرح ادا كرے، اور اگر اس نے اسى حالت ميں نماز ادا كر لى تو كيا اس كى نماز قبول ہو گى ؟
4 – اور اگر كسى مسلمان شخص كو يہ شك ہو كہ اس نے پيشاب لگنے والى جگہ دھوئى ہے يا نہيں تو اس كا حكم كيا ہو گا، اور كيا يہ طہارت اور نماز پر اثر انداز ہوتا ہے ؟
5 – اگر كسى ( پيشاب والى جگہ كو دھونے كے شك والے ) نے نماز ادا كر لى تو كيا وہ نماز لوٹائےگا، اور كيا اسى حالت ميں اس كے ليے قرآن مجيد كى تلاوت كرنا اور اسے چھونا جائز ہے ؟
6 – اس حالت ميں كونسے امور سرانجام دينا حرام ہيں ؟
آپ سے گزارش ہے كہ واضح فتوى سے نواز كر ميرا شك زائل كريں.
اگر كپڑے كو گندگى اور نجاست لگ جائے تو كيا كيا جائے
سوال: 12720
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
مسلمان شخص كو نجاست سے اجتناب كرنا چاہيے، اور يہ كوشش كرنى چاہيے كہ وہ جس قدر بھى اس سے بچ سكتا ہے بچے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے:
" ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور انہيں كوئى بڑى چيز ميں عذاب نہيں ہو رہا، ان ميں سے ايك تو پيشاب سے احتراز نہيں كرتا تھا، اور دوسرا غيبت و چغلى كرتا تھا "
اور ايك روايت ميں ہے:
" اور دوسرا پيشاب سے تنزہ اختيار نہيں كرتا تھا "
صحيح مسلم كتاب الطہارۃ حديث نمبر ( 439 ).
اور تنزہ كا معنى يہ ہے كہ وہ اس سے اجتناب اور احتراز نہيں كرتا تھا اسى ليے اس شرط كے ساتھ پيشاب كھڑے ہو كر كرنا جائز ہے جب پيشاب كے چھينٹے اڑ كر اس كے جسم اور لباس پر پڑتے ہوں.
آپ سوال نمبر ( 9790 ) كا جواب ضرور ديكھيں.
دوم:
سوال ميں بيان كردہ نقاط كے جوابات:
1 – انسان كے لباس كو نجاست لگنے سے غسل واجب نہيں ہوتا، كيونكہ نجاست نہ تو نواقض وضوء ميں شامل ہوتى ہے اور نہ ہى نواقض غسل ميں، بلكہ حدث اكبر يعنى جنابت كى شكل ميں غسل واجب ہوتا ہے، اور حدث اصغر يعنى پيشاب پاخانہ وغيرہ كى بنا پر وضوء كرنا واجب ہے، اس ليے اگر انسان طاہر اور پاك ہو اور اس كے لباس كو نجاست لگ جائے تو وہ اس سے مُحْدَثْ نہيں ہو گا يعنى وہ بے وضوء نہيں ہو جائيگا بلكہ اس حالت ميں اس پر يہ نجاست زائل كرنا واجب ہوگى.
اور پھر بندہ تو اپنے لباس سے نجاست دور كرنے كا مامور بھى ہے كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور اپنے كپڑے پاك صاف كرو المدثر ( 4 ).
اور اس ليے بھى كہ حيض كا خون كپڑے كو لگنے كى صورت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" اسے كھرچ لو اور پھر پانى كے ساتھ مل كر اس پر پانى بہا دو اور پھر اس ميں نماز ادا كر لو "
صحيح بخارى كتاب الحيض حديث نمبر ( 297 ).
اور اور اگر جسے نجاست لگى ہے اسے نچوڑنا ممكن ہو تو اسے نچوڑنا ضرورى ہے.
2 – نجاست دھو كر زائل كى جائيگى حتى كہ نجاست كا اثر ختم ہو جائے، اس ليے اگر كسى كپڑے كو نجاست لگ جائے تو نجاست والى جگہ ہى دھونى واجب ہے، باقى جگہ دھونى لازم نہيں، اور اسى طرح اس كے ليے اپنے كپڑے بدلنا بھى واجب نہيں، اور اگر وہ اس كے بدلے دوسرا لباس پہننا چاہے تو ايسا كر سكتا ہے.
3 – رہا نجاست لگى كپڑے ميں نماز كى ادائيگى كا مسئلہ تو اس كے متعلق گزارش ہے كہ: يہ ضرور معلوم ہونا چاہيے كہ نماز صحيح ہونے كى شروط ميں طہارت و پاكيزگى شرط ہے، اس ليے اگر نجاست سے پاكى اختيار نہ كى جائے تو نماز باطل ہوگى.
كيونكہ اس نے گندگى سميت نماز ادا كى ہے، اور اگر وہ گندگى لگے ہوئے كپڑے سميت نماز ادا كرتا ہے تو اس نے اس طرح نماز ادا نہيں كى جس طرح اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم چاہتے ہيں، اور نہ ہى اس نے اس طرح نماز ادا كى ہے جس طرح اللہ اور اس كے رسول كا حكم ہے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے كہ:
" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے "
ـ كپڑے كو نجاست لگ جانے كى صورت ميں كئى ايك حالتيں ہيں:
1 – جب انسان كو كپڑے ميں كسى معين جگہ نجاست لگنے كا يقين ہو تو اس كے ليے نجاست لگى جگہ دھونا واجب ہے.
2 – يہ كہ كسى معين جگہ پر نجاست لگنے كا غالب گمان ہو.
3 – كپڑے ميں كسى جگہ نجسات لگنے كا انسان كو احتمال ہو تو دوسرى اور تيسرى حالت ميں انسان كو تلاش كرنا ہوگا جہاں غالب گمان ہو كہ نجاست اس جگہ لگى ہے وہاں سے دھو لے "
ديكھيں: الشرح الممتع تاليف ابن عثيمين ( 2 / 221 ).
قليل سى نجاست كا حكم:
بعض اہل علم كہتے ہيں كہ: تھوڑى سى مطلقا نجاست بھى معاف نہيں.
اور بعض كہتے ہيں كہ: ہر قسم كى تھوڑى سى نجاست معاف ہے، امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہ اختيار كيا ہے كہ: خاص كر جس ميں لوگ بہت زيادہ مبتلا ہوں اور اس كا خيال ركھنا مشكل ہو تو اس سے طہارت حاصل ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور اللہ تعالى نے تم پر تمہارے دين ميں كوئى تنگى نہيں ركھى الحج ( 78 ).
صحيح وہى ہے جس كى طرف ابو حنيفہ اور شيخ الاسلام ابن تيميہ گئے ہيں، مشقت كى بنا پر مسلسل پيشاب ميں مبتلا شخص كے ليے تھوڑى سى نجاست معاف ہے، اگر وہ اس سے حسب استطاعت و قدرت اجتناب كرنے كى كوشش كرے تو پھر.
ديكھيں: الشرح الممتع تاليف ابن عثيمين ( 1 / 382 ).
رہا يہ مسئلہ كہ اس قليل اور تھوڑى سى نجاست كى حد كيا ہے تو اس ميں متعبر وہ ہوگا جسے لوگ قليل اور تھوڑى سى شمار كرتے ہوں، اور جسے لوگ زيادہ اور كثير شمار كريں وہ زيادہ ہوگى.
اس بنا پر يہ كہا جائيگا كہ: اصل يہ ہے كہ جب انسان كے كپڑے كو پيشاب كا قطرہ لگ جائے تو وہ اس جگہ كو ہى دھو لے حتى كہ اس كے گمان ميں نجاست زائل ہونا غالب ہو جائے، اور جو باقى ہے اور دھويا نہيں گيا وہ تھوڑى اور قليل ميں شامل ہوگا جو كہ معاف ہے. واللہ اعلم.
ـ ليكن اگر نجاست لگنے سے جاہل ہو تو اس كے متعلق شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" اگر اسے نجاست لگنے كا علم نہ ہو اور نماز سے فارغ ہونے كے بعد نجاست لگنے كا علم ہو تو اس كى نماز صحيح ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو جب جبريل امين عليہ السلام نے نماز ميں بتايا كہ ان كى جوتے ميں نجاست لگى ہوئى ہے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے جوتے اتار ديے اور نماز كا جو حصہ ادا ہو چكا وہ دوبارہ ادا نہ كى اور اسى طرح اگر اسے نماز سے قبل نجاست كا علم تو ہو جائے ليكن وہ بھول جائے اور نماز ادا كر لى اور نماز كے بعد ياد آيا تو اس كى نماز صحيح ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ہمارے رب اگر ہم سے بھول چوك ہو جائے يا ہم غلطى كر ليں تو ہمارا مؤاخذہ نہ كرنا …
ليكن اگر دوران نماز كپڑے ميں نجاست لگنے كا شك ہو تو اس كے ليے نماز چھوڑ كر جانا جائز نہيں چاہے امام ہو يا مقتدى يا اكيلا بلكہ وہ نماز مكمل كرے.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 12 / 396 – 397 ).
4 – نجاست زائل كرنے ميں شك كا مسئلہ:
جب كپڑے كو نجاست لگى ہو تو يہ اصل ہے اور اس اصل ميں يقين ہونا چاہيے حتى كہ نجاست زائل ہو جائے، اور نجاست زائل ہونے سے ہى زائل ہوگى، اور اگر اسے شك ہو كہ نجاست زائل ہوئى ہے يا نہيں تو اسے يقين پر بنا كرنى چاہيے وہ يہ ہے كہ نجاست زائل نہيں ہوئى، اور اسى طرح اس كے برعكس، اگر اسے يہ يقين ہو جائے كہ كپڑا طاہر ہے اور پھر اسے شك ہو جائے كہ آيا كپڑے كو نجاست لگى ہے يا نہيں تو كہا جائيگا كہ: اصل طہارت ہى ہے كيونكہ يہ چيز يقينى ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
انسان كو اپنے لباس ميں اصل يہى ہے كہ وہ طاہر ہيں جب تك اس كے لباس يا بدن ميں نجاست لگنے كا يقين نہ ہو جائے، اس كى دليل يہ ہے كہ ايك شخص نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے جب شكايت كى كہ وہ اپنى نماز ميں كچھ ( يعنى ہوا خارج ہونا ) محسوس كرتا ہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" وہ اس وقت تك نماز نہ توڑے جب تك وہ آواز نہ سن لے يا پھر بدبو نہ پا لے "
اس ليے اگر كسى شخص كو اس كا يقين نہ ہو تو اصل ميں طہارت ہى ہے، اور بعض اوقات كپڑوں كو نجاست لگنے كا ظن غالب ہوتا ہے ليكن جب تك اسے يقين نہ ہو وہ اپنى طہارت پر قائم ہے.
ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 107 ).
5 – اگر لباس پر نجاست لگى ہو تو اس حالت ميں صرف نماز ادا كرنا جائز نہيں، چاہے اس نے وضوء بھى كيا ہو، اس كے علاوہ باقى افعال قرآن مجيد كى تلاوت وغيرہ سرانجام دے سكتا ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات