میں کچھ طبی وجوہات کی بنا پر خاندانی منصوبہ بندی کیلیے گولیاں استعمال کرتی ہوں، میں کچھ دن یہ گولیاں لینا بھول گئی اور اب مجھے خون کے جاری ہونے کی شکایت ہے۔ جن دنوں میں مجھے خون جاری ہونے کی شکایت ہوتی ہے میں ان میں سے دو دن نماز بھی ادا کرتی ہوں لیکن مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں گناہ کا کام کر رہی ہوں۔ اس بارے میں صحیح رائے کیا ہے؟
میں امید کرتی ہوں کہ اس بات کو اچھی طرح مد نظر رکھیں گے کہ یہ گولیاں میں طبی مسائل کی وجہ سے استعمال کر رہی ہوں، اور میرے خاوند کو بھی ان گولیوں کے استعمال کا علم ہے۔
طبی مسائل کچھ اس طرح کے ہیں کہ اگر میں یہ گولیاں استعمال نہ کروں تو مجھے طبی پیچیدگیوں کاسامنا کرنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
مانع حمل گولیاں کھانے کی وجہ سے ماہواری غیر منظم ہو گئی ہے۔
سوال: 127259
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عورت کیلیے مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ ہے:
پہلی شرط: مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کی ضرورت ہو؛ مثلاً: خاتون بیمار ہو یا جسمانی طور پر کمزور ہو اور حمل ٹھہرنے سے اس کی بیماری یا کمزور ی میں اضافے کا امکان ہو۔
دوسری شرط یہ ہے کہ: خاتون کو اس کا خاوند گولیاں استعمال کرنے کی اجازت دے؛ کیونکہ افزائش نسل خاوند کا حق ہے۔
نیز یہ بھی ضروری ہے کہ مانع حمل گولیاں استعمال کرنے کیلیے کسی معتمد طبی ماہر سے مشورہ بھی ضروری ہے کہ ان سے اطمینان کر لیا جائے کہ یہ گولیاں آپ کی صحت کیلیے کس حد تک موزوں ہیں ، نیز اس بات پر بھی اطمینان کر لیا جائے کہ مستقبل میں ان گولیوں کے استعمال سے آپ پر منفی اثرات نہیں پڑیں گے۔
نیز پہلے سوال نمبر: (21169) کے جواب میں یہ باتیں شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ سے نقل کی گئی ہیں۔
دوم:
جہاں تک سوال میں مذکور جاری ہونے والے خون کے حکم اور اس خون کے دوران ادا کی گئی نمازوں اور روزوں کے حکم کا تعلق ہے کہ: ان گولیوں کے استعمال سے خون میں بد نظمی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ بات سب کو معلوم ہے،اور یہ بھی کہ اس سے خون کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے یا پھر جلدی آنا شروع ہو جاتا ہے۔
تو اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں کہ اسے حیض شمار کیا جائے گیا یا نہیں؟
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے یہ موقف اپنایا ہے کہ ان گولیوں کی وجہ سے حیض کے خون میں رونما ہونے والا اضافہ بھی حیض ہی شمار ہو گا، آپ کہتے ہیں:
"ان گولیوں کے مضر اثرات میں یہ بھی شامل ہے کہ: ان سے خواتین کے ماہواری نظام میں بد نظمی پیدا ہوجاتی ہے، اور اس بد نظمی کی وجہ سے عورت کو پریشانی اور شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مزید برآں فتوی دینے والوں کو بھی فتوی دیتے ہوئے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ کیونکہ انہیں بھی معلوم نہیں ہوتا کہ بد نظمی کی وجہ سے معتاد ایام سے اضافی جاری رہنے والا خون حیض کا ہے یا نہیں؟
اس بنا پر: اگر کسی خاتون کو ماہواری 5 دن آتی تھی اور اس نے مانع حمل گولیاں استعمال کیں اور ماہواری کا دورانیہ پہلے سے زیادہ ہو گیا ، تو ایسی صورت میں یہ اضافی ایام بھی (اصل یعنی)ماہواری کے حکم میں ہوں گے؛ مطلب یہ ہے کہ اسے بھی حیض کا حکم حاصل ہو گا بشرطیکہ یہ ماہواری 15 دن سے زیادہ نہ ہو۔
چنانچہ اگر 15 دن سے زیادہ ماہواری کا دورانیہ بڑھ جائے تو پھر اسےاستحاضہ کہا جائے گا، اور 15 دن سے زیادہ ہونے پر اس کا وہی حکم ہوگا جو اس کی سابقہ معتاد ماہواری کے 5 دن کے بعد ہوتا تھا (یعنی: اس پر طہر کے احکام لاگو ہوں گے اور ایسی خاتون نماز روزے کا اہتمام کرے گی)" انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (123/1)
جبکہ دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ:
خاتون مانع حمل گولیوں کی وجہ سے جاری ہونے والے خون کو دیکھ کر حکم لگائے گی، چنانچہ اگر اس خون میں حیض والی صفات ہوں تو وہ حیض ہو گا، اور اگر عام خون جیسی اس میں صفات ہوں تو وہ فاسد خون ہو گا اور اس پر حیض کا حکم لاگو نہیں ہو گا۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"آج کل خواتین گولیوں اور کڑوں کی شکل میں مصنوعی مانع حمل چیزیں استعمال کرتی ہیں، اور کوئی بھی معالج کڑا یا گولیاں دینے سے پہلے خاتون کو دو گولیاں دیتا ہے تا کہ یہ اطمینان کر لے کہ خاتون پہلے سے حاملہ نہیں ہے، تو اگر عورت حاملہ نہ ہو تو اسے خون آنا لازمی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ محدود دنوں میں جاری ہونے والا یہ خون حیض کا حکم رکھتا ہے کہ اس دوران نماز اور روزے کا اہتمام نہیں کرنا اور جماع بھی نہیں کرنا؟ واضح رہے کہ ان دو گولیوں کی وجہ سے آنے والا خون حیض کے معتاد دنوں میں نہیں آتا۔
اسی طرح کڑا یا چھلہ رکھوانے کے بعد یا گولیاں استعمال کرنے بعد عورتوں کی ماہواری کے نظام میں تبدیلیاں آ جاتی ہیں کہ مانع حمل ذریعہ اپناتے ہی فوری طور پر اتنا خراب ہو جاتا ہے کہ کچھ خواتین کو پورے ماہ میں صرف ایک ہفتہ ہی خون نہیں آتا اور بقیہ تین ہفتوں میں اسے خون مسلسل جاری رہتا ہے، نیز جاری رہنے والے خون کی صفات بھی وہی ہوتی ہیں جو حیض کے خون کی ہوتی ہیں۔
اسی طرح عدم حمل شناخت کرنے کیلیے دی جانی والی دو گولیوں کے بعد بھی حیض جیسا ہی خون آتا ہے، جیسے کہ پہلے سوال میں ذکر کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ: ان تین ہفتوں کے دوران عورت کیلیے کیا حکم ہے؟ کیا یہ خون حیض کا خون ہے؟ یا خاتون مانع حمل ذرائع اپنانے سے پہلے والی اپنی سابقہ عادت کے مطابق ہی ماہواری کے ایام گزارے جو کہ ایک ہفتہ یا دس دن تھی؟"
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا:
"اگر مذکورہ دو گولیاں کھانے کے بعد آنے والا خون انہی صفات کا حامل خون تھا جو عورت کو ماہواری کے ایام میں آتا تھا تو ایسی صورت میں خاتون نماز نہیں پڑھے گی اور نہ ہی روزے رکھے گی، اور اگر اس میں وہ صفات نہیں ہیں تو پھر اس خون کو نماز، روزے یا جماع سے روکنے والا خون شمار نہیں کیا جائے؛ کیونکہ یہ خون تو صرف گولیوں کی وجہ سے ہی جاری ہوا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/402)
نیز شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ ان سے گولیاں کھانے کی وجہ سے جاری ہونے والے خون کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
"عورت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کرے، اگر تو معالج یہ کہہ دے کہ یہ حیض کا خون ہے ، تو وہ حیض شمار ہو گا۔
اور اگر طبیب یہ کہے کہ یہ گولیوں کی وجہ سے ہے تو پھر یہ حیض نہیں ہے" انتہی
فتاوى ودروس حرمِ مکی از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ (2/284)
یہ ایک اچھا موقف ہے اور اس سے ان شاء اللہ پیچیدگی رفع ہو جائے گی۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات