يہاں ناروے ميں ميرى ايك سہيلى نے تيرہ برس قبل شادى كى اور اس كے تين بچے بھى ہيں، اس كا خاوند شادى كے وقت سے زنا كا عادى ہے، اور ايسا شخص ہے جسے حقوق زوجيت كا كوئى علم تك نہيں، وہ اسے زدكوب كرتا اور سب و شتم كے ساتھ گندے ترين كلمات بھى استعمال كرتا، ليكن وہ عورت صبر و تحمل سے كام ليتى كہ ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس كى اصلاح فرمائے، ليكن كوئى فائدہ نہ ہوا.
اس شخص نے اسے كئى بار طلاق دى حتى كہ اسے تو طلاق كتنى بار دى ہے وہ بھى علم نہيں ركھتى، ليكن اس كے گھر والے اپنے خاوند كو نہ چھوڑنے پر مجبور كرتے كيونكہ ان كے ہاں يہ بہت بڑا عيب ہے!
اور جس حرام ميں ان كى بيٹى پڑى ہوئى ہے اسے وہ عار تك نہيں سمجھتے، نو برس كے بعد اس لڑكى كے ليے زندگى گزارنا مشكل ہوگئى، اور وہ آپس ميں عليحدہ ہو گئے كيونكہ اس كے خاوند نے اس بار سب كے سامنے طلاق دى تھى، اس طرح وہ امر واقع ميں پڑے يعنى خاندان والے اور انہوں نے طلاق قبول كر لى.
عدت ختم ہونے كے بعد اس كے چھوٹے بھائى نے خاندان والوں سے چھپ كر مكمل خفيہ طور پر اس لڑكى سے شادى كر لى، ليكن مشكل يہ پڑى كہ جيسے ہى پہلے خاوند كى اس كى شادى كا علم ہوا تو اس نے ايسا كچھ كيا جو پاگل و مجنون بھى نہيں كرتا.
اس نے بڑى شدت كے ساتھ چھوٹے بھائى كو حكم ديا كہ وہ اسے جبرى طلاق دے، ليكن دوسرا خاوند طلاق دينے پر موافق نہ تھا، ليكن اس كے ہاتھ ميں كوئى حيلہ بھى نہ تھا، اس طرح پہلے خاوند نے يہاں ناروے ميں موجود ايك مولانا صاحب كے سامنے يہ كہہ كر اس سے شادى كر لى كہ وہ ايك كنوارى لڑكى سے شادى كر رہا ہے !
اور اس شادى ميں لڑكى كا ماموں اس لڑكى كا وكيل تھا اب يہ لڑكى خون كے آنسو روتى ہے اور وہ اس خاوند كو نہيں چاہتى جس نے اتنے برس اس كى اتنى تذليل و اہانت كى ہے اور اسے كسى بھى قسم كا كوئى حق تك نہيں ديا، وہ آپ جناب والا سے يہ دريافت كرتى ہے كہ:
اس شادى اور طلاق كا حكم كيا ہے ؟ برائے مہربانى ہميں اس كے متعلق معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، وہ آپ كے جواب بڑى بے صبرى سے انتظار كر رہى ہے، اور اس نے مجھے كہا كہ ميرى جانب سے ميرا يہ خط كسى مولانا صاحب كو روانہ كروں اس ليے كہ وہ عربى نہيں جانتى.
خاوند نے كئى بار طلاق دے دى اور اس كے بھائى نے خفيہ طور پر شادى كر دى پھر اسے طلاق دينے پر مجبور كيا اور وہ پہلے خاوند كى طرف واپس چلى گئى
سوال: 127502
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
ہم اس لڑكى كے خاندان اور گھر والوں كو اس ظلم كا ذمہ دار سمجھتے ہيں اور انہيں ميں عيب تھا كہ وہ اپنى بيٹى پر ظلم و ستم ديكھ كر خاموش رہے، اور معاملات كو اس كے نصاب ميں نہيں رہنے ديا، لگتا ہے اسى وجہ سے خاوند ان كى بيٹى پر مسلط ہوا.
خاندان والوں كے قبول كرنے ہى نہيں بلكہ بيٹى كو حرام ميں زندگى گزارنے پر مجبور كرنے اور اس خاوند كے پاس واپس جانے پر مجبور كرنے كى بنا پر ہى يہ سب كچھ ہوا حالانكہ اس كے خاوند نے كئى بار طلاق بھى دى، جيسا كہ سوال ميں بيان بھى ہوا ہے.
دوم:
رہا بيوى اور اس كے خاوند كے ساتھ تعلقات كے متعلق تو يہ معاملہ تفصيل طلب ہے، اور اس كے ليے جو اس معاملہ ميں براہ راست لوگ ملوث ہيں ان سے تفصيل طلب كى جائيگى بلكہ ان ا فراد كو كسى اہل علم كے پاس خود بنفس نفيس جانا ہو گا، تا كہ اس لڑكى اور اس كے دونوں خاوندوں كے مابين جو كچھ ہوا وہ مكمل تفصيل كے ساتھ بيان كيا جائے.
ليكن يہاں ہم نے جو كچھ سوال سے اس كى حالت كے متعلق جو سمجھا ہے اس كے مطابق ہم كچھ احكام بيان كرتے ہيں جو ہو سكتا ہے اس پر لاگو ہوتے ہوں:
1 ـ وہ پہلا خاوند جس كے متعلق وہ عورت كہتى ہے كہ اس نے اسے كئى بار طلاق دى ہے، اور يہ عورت ہى جانتى ہے كہ اسے كتنى بار طلاق ہوئى، ہم كہتے ہيں:
اگر تو خاوند نے اسے دو بار طلاق دى تو يہ طلاق رجعى ہے اس ميں خاوند رجوع كر سكتا ہے، ليكن اگر اس نے اسے تيسرى طلاق دى ـ يا اس سے زائد ـ تو يہ طلاق بائن ہے جو اسے خاوند كے ليے اجنبى بنا كر اس كے ليے حرام كر ديتى ہے اس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے، اور يہ نكاح صحيح اور نكاح رغبت ہونا چاہيے نكاح حلالہ نہ ہو.
2 ـ اس كى دوسرى شادى كے متعلق سوال ميں بيان ہوا ہے كہ ” يہ شادى خاندان سے مكمل خفيہ طور پر ہوئى ” اگر تو اس كا مقصد پہلے خاوند كا خاندان ہے تو پھر كوئى اشكال نہيں، ليكن اگر اس سے مراد لڑكى كا خاندان ہے تو پھر يہ نكاح باطل ہے، اور وہ اس سے اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى ـ اگر پہلے نے اسے تين طلاقيں دى تھيں ـ كيونكہ يہ نكاح ولى كے بغير ہوا ہے.
3 ـ اور اگر لڑكى كے خاندان اور گھر والوں كو دوسرى شادى كا علم تھا، اور لڑكى كا ولى اس پر متفق تھا تو يہ نكاح صحيح ہے، الا يہ كہ اگر اس چھوٹے بھائى نے اس لڑكى سے شادى اس ليے كى كہ وہ اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال ہو جائے تو يہ نكاح حلالہ ہوگا، اور يہ باطل ہے، اس سے وہ اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہوگى.
4 ـ اگر تود وسرے خاوند نے اپنے بھائى كے جبر كرنے پر بيوى كو طلاق دى تو يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، جبر كا معنى يہ ہے كہ اس كے بھائى نے طلاق نہ دينے كى صورت ميں جان سے مار دينے يا پھر شديد زدكوب كرنے كى دھمكى دى ہو.
ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” جبرا طلاق ديے جانے كے مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، چنانچہ امام مالك، امام شافعى اور ان دونوں كے اصحاب اور امام احمد اور داود كہتے ہيں كہ مكرہ كى طلاق لازم نہيں ہوگى، نہ تو يہ واقع ہوتى ہے اور نہ ہى يہ طلاق صحيح ہے.
ان كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:
مگر جسے مجبور كر ديا گيا ہو اور اس كا دل ايمان پر مطمئن ہو النحل ( 106 ).
چنانچہ يہاں زبان سے كفر كى نفى كى گئى ہے كہ جب انسان كا دل ايمان پر مطمئن ہو تو زبان سے كفر نہيں ہوگا، اسى طرح اگر وہ دل سے طلاق نہيں چاہتا، اور نہ ہى طلاق كا ارادہ و قصد اورنيت ہے تو طلاق بھى نہيں ہو گى.
عمر بن خطاب اور على بن ابى طالب اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم سے مروى ہے كہ مكرہ كى طلاق كو لازم نہيں كيا جائيگا.
اسى طرح ابن عمر اور ابن زبير نے بھى يہى كہا ہے ” انتہى مختصرا .
ديكھيں: الاستذكار ( 6 / 201 ـ 202 ).
سوال نمبر ( 99645 ) كے جواب ميں ہم بيان كر چكے ہيں كہ مكرہ يعنى جبر كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہو گى، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اگر تو معاملہ ايسے ہى ہے تو يہ چھوٹے بھائى كى ابھى بھى بيوى ہے، اور اس كے بڑے بھائى كا نئے نكاح سے شادى كرنا باطل ہے، كيونكہ اس نے ايسى عورت سے شادى كى ہے جو كسى دوسرے كى بيوى ہے اور اس كے نكاح ميں ہے.
5 ـ اور اگر طلاق جبرى نہيں بلكہ صرف منت و سماجت اور اصرار كر كے حاصل ہوئى ہے، يا پھر چھوٹے بھائى كے ليے طلاق نہ دينا ممكن تھا، كہ اسے طلاق نہ دينے كى صورت ميں كوئى ضرر و نقصان نہيں ہو سكتا تھا تو پھر طلاق واقع ہو گئى ہے.
6 ـ ہمارى رائے كے مطابق اس نئے نكاح كے ساتھ اپنے پہلے خاوند كى طرف واپس جانا صحيح نہيں، كيونكہ يہ نكاح ولى كے بغير ہوا ہے، اور ولى عصبہ شخص بن سكتا ہے، مثلا باپ يا بھائى يا پھر چچا، ليكن لڑكى كا ماموں ولى نہيں بن سكتا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” قريبى عصبہ كے علاوہ كسى دوسرے كو ولايت حاصل نہيں مثلا ماں كى طرف سے بھائى، يا ماموں، يا ماں كا چچا يا نانے كا باپ وغيرہ ولى نہيں بن سكتے.
امام احمد رحمہ اللہ نے كئى ايك جگہ پر يہى بيان كيا ہے اور امام شافعى رحمہ اللہ كا بھى قول يہى ہے، اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ سے بھى ايك روايت يہى ہے ”
ديكھيں: المغنى ( 7 / 13 ).
نكاح ميں ولى كے متعلق تفصيلى كلام ديكھنے كے ليے آپ سوا ل نمبر (2127 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
پھر اگر وہ لڑكى اپنے پہلے خاوند كى طرف رضامندى كے بغير واپس گئى ہے تويہ اس نكاح كے غير صحيح ہونے كا ايك اور سبب ہے.
اور جب اس كے پہلے خاوند نے اسے پہلے سے تين طلاقيں دے ديں تو وہ اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو سكتى جب تك وہ كسى دوسرے سے نكاح اور رغبت كے ساتھ نكاح نہ كرے، اور اس پہلے خاوند كے چھوٹے بھائى يعنى ديور سے نكاح اگر ولى كے بغير ہوا ہے تو يہ نكاح صحيح نہيں تھا اس ليے وہ اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال ہى نہيں ہو سكتى.
7 ـ عقد نكاح كے وقت كذب بيانى كرنا جائز نہيں، كہ يہ بيان كيا جائے يہ عورت كنوارى ہے، حالانكہ وہ ثيب تھى، ليكن جب خاوند كو حقيقت حال كا علم ہو تو يہ چيز عقد نكاح كے صحيح ہونے پر اثرانداز نہيں ہوگى.
بہت سارى تفصيلات اور احتمالات كو مدنظر ركھتے ہوئے اس معاملہ ميں ہمارے ليے يہى كچھ بيان كرنا ممكن ہو سكا، اس ليے اس معاملہ كو كسى اہل علم كے سامنے پورى تفصيل كے ساتھ ركھنا ہوگا تا كہ وہ اس ميں كوئى فيصلہ كر سكے.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات