ميں اپنى بيٹى كى پرورش كے زيادہ حقدار كے متعلق دريافت كرنا چاہتى ہوں، ميرے پہلے خاوند نے تقريبا چار برس قبل مجھے طلاق دى تو ميں حاملہ تھى، بعد ميں بيٹى پيدا ہوئى جو كہ اب تك ميرے ساتھ رہ رہى ہے، الحمد للہ ميں نے دو ماہ ايك اچھے دينى بھائى سے شادى كر لى ہے، اس وقت سے ميرا سابقہ خاوند ميرے موجودہ خاوند كے ساتھ فون پر ميرى بيٹى كے متعلق بات چيت كرتا رہتا ہے، ميں يہ پوچھنا چاہتى ہوں كہ كيا ميں بيٹى كو باپ كے سپرد كردوں حالانكہ وہ اس كى پرورش كا ہتمام نہيں كرتا، يا كہ ميں بيٹى كو اپنے پاس ہى ركھوں چاہے ميں نے دوسرى شادى بھى كر لى ہے.
ميں نے ايك فتوى پڑھا ہے جس ميں بيان كيا گيا ہے كہ جب عورت شادى كر لے تو باپ اولاد كى پرورش كا زيادہ حقدار ہو گا، برائے مہربانى مجھے اس مسئلہ كے متعلق معلومات فراہم كريں، اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے. ؟
اگر باپ بيٹى كى پرورش ميں كوتاہى كرتا ہو تو اس كى ماں پرورش كى زيادہ حقدار ہے
سوال: 127610
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دين اسلام نے بچوں كى بہتر تربيت اور پرورش كرنے اور خاص كر پرورش كى عمر ميں ان كى ديكھ بھال كرنے كى حرص ركھى ہے، اور جب خاوند و بيوى كے مابين عليحدگى ہو جائے تو يہ چيز اور يقينى اور تاكيدى بن جاتى ہے، اس ليے بچے كى مصلحت كا خيال ركھنا ضرورى ہے، اور انسانى فطرت سليمہ بھى اس كى دعوت ديتى ہے، چہ جائيكہ شريعت اسلاميہ اس پر ابھارتى ہو، كيونكہ شريعت اسلاميہ ہر برائى سے روكتى اور ہر قسم كى بھلائى كى ترغيب دلاتى ہے.
اور اصل يہ ہے كہ: جب طلاق ہو جائے تو چھوٹے بچوں كى پرورش كا باپ سے زيادہ ماں كو حق حاصل ہے، اور اگر ماں شادى كر لے تو اس كا يہ حق پرورش ساقط ہو جاتا ہے.
ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” علماء كا اتفاق و اجماع ہے كہ جب خاوند اور بيوى ميں عليحدگى و جدائى ہو جائے اوران كا بچہ ہو تو جب تك ماں نكاح نہيں كرتى تو اس كى ماں زيادہ حقدار ہے، اور اس پر بھى متفق ہيں كہ جب ماں شادى كر لے تو پھر اس كا حق نہيں ركھتى ” انتہى
ديكھيں: الاجماع ( 24 ).
اس كى دليل سنت نبويہ ميں ملتى ہے ابو داود ميں حديث ہے كہ:
ايك عورت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آئى اور عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميرے اس بيٹے كے ليے ميرا پيٹ اس كے ليے رہنے كى جگہ تھى، اور ميرى چھاتى اس كى خوراك كا باعث تھى، اور ميرى گود اس كى حفاظت كى جگہ تھى، اور اس كے باپ نے مجھے طلاق دے دى ہے، اور اب اس كو مجھ سے چھيننا چاہتا ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے فرمايا:
” تم جب تك نكاح نہيں كرتى اس كى زيادہ حقدار ہو ”
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2276 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود حديث نمبر ( 1968 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بچے كى ولايت دو قسم كى ہے:
ايك قسم ميں تو ماں اور اس كى جانب سے جو بھى ہو پر باپ كو مقدم كيا جائيگا، اور وہ مال اور نكاح كى ولايت ہے.
اور دوسرى قسم ميں باپ پر ماں كو مقدم كيا جائيگا، اور وہ پرورش و رضاعت كى ولايت ہے، اور ان دونوں قسموں ميں والدين ميں سے اس فريق كو مقدم كيا گيا ہے جو بچے كى مصلحت كو پورا كر سكتا ہے، اور بچے كى مصلحت والدين ميں سے جس كے ساتھ موقوف ہے اور وہ اس كو پورا كر سكتا ہے.
اور جب عورتيں پرورش و تربيت كى زيادہ ماہر ہيں اور اس پر وہ صبر بھى كرتى ہيں اور نرمى بھى اور اس كے ليے وقت بھى صرف كرتى ہيں اس ليے انہيں باپ پر مقدم كيا گيا ہے.
اور جب بچے كى شادى كى مصلحت اور احتياط كے حصول ميں باپ زيادہ بہتر ثابت ہو سكتا تھا تو اس مسئلہ ميں باپ كو ماں پر مقدم كيا گيا.
چنانچہ پرورش كے معاملہ ماں كو مقدم كرنا محاسن اسلاميہ اور بچوں كى احتياط اور ان كى بہترى ميں شامل ہوتا ہے، اور مال اور شادى كے مسئلہ ميں باپ كو مقدم كرنا بھى ايسے ہى محاسن اسلام اور بچے كى بہترى ميں شامل ہوتا ہے ” انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 392 ).
ليكن اگر جسے حق پرورش حاصل ہے ـ چاہے ماں ہو يا باپ ـ وہ بچے كى پرورش ميں حق ضائع كرنے والا ہو تو پھر حق پرورش اس كو منتقل ہو جائيگا جو بچے كى ديكھ بھال كر سكتا ہو اور اس پر مہربانى كرے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” امام احمد اور ان كے اصحاب باپ كو اس صورت ميں مقدم كرتے ہيں جب اس ميں بچى كو كوئى ضرر نہ ہو، فرض كريں كہ اگر وہ بچى كى حفاظت اور ديكھ بھال كرنے سے عاجز ہو يا پھر اس كى حفاظت اور ديكھ بھال ميں كوتاہى كا مرتكب ہوتا ہو تو پھر اس حالت ميں ماں كو مقدم كيا جائيگا.
ماں اور باپ ميں سے جسے بھى ہم نے مقدم كرينگے وہ اس ليے كہ جب اس ميں بچى كى مصلحت حاصل ہوتى ہو، يا پھر اس سے اس كى خرابى دور ہوتى ہے، ليكن اگر ان ميں سے كسى ايك ميں خراب اور فساد كى موجودگى ميں بلاشك و شبہ دوسرا حق پرورش ميں اولى ہوگا ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 131 ).
اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
” اگر فرض كيا جائے كہ باپ نے سوكن سے شادى كر لى اور اس بچى كو اس كى ماں كى سوكن كے پاس چھوڑے گا جو اس كى مصلحت پر عمل نہيں بلكہ اسے اذيت دے گى، يا پھر اس كى مصلحت اور ديكھ بھال ميں كوتاہى كريگى، اور اس كى ماں بچى كى مصلحت پر عمل كرتى ہے اور اس كى اذيت وتكليف نہيں آنے ديتى تو يہاں حق پرورش ماں كو حاصل ہو گا.
يہاں يہ معلوم ہونا چاہيے كہ شارع نے ماں اور باپ ميں سے كسى ايك كو مطلقا مقدم كرنے يا ماں باپ ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كے متعلق شارع نے كوئى واضح نص بيان نہيں كى.
اور علماء اس پر متفق ہيں كہ ان ميں سے كسى ايك كو مطلقا متعين نہيں كيا جائيگان بلكہ زيادتى و كوتاہى كى صورت ميں اس پر مقدم نہيں كيا جائيگا جو نيك وصالح اور عادل ہو اور واجبات كى ادائيگى كرنے والا ہو ” انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 132 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:
” جب خاوند اور بيوى ميں عليحدگى و جدائى ہو جائے تو بچے كى پرورش كا سب سے زيادہ حق ماں كو حاصل ہے، اور جب بچہ سات برس كا ہو جائے تو اسے اختيار ديا جائيگا كہ وہ جسے چاہے اختيار كر لے جسے بچہ اختيار كرے اسى كے پاس رہے گا، اور اگر بچى جب سات برس كى ہو جائے تو باپ اس كا زيادہ حقدار ہے؛ كيونكہ وہ حفاظت و نگہبانى كى محتاج ہے، اور ماں بھى كسى ايسے شخص كى محتاج ہے جو اس كى حفاظت كرے اور اسے بچا كر ركھے، امام احمد كے مسلك ميں پرورش والے بچے يا بچى كو كسى ايسے كے ہاتھ ميں نہيں رہنے ديا جائيگا جو اس كى نہ تو حفاظت كر سكتا ہو، اور نہ ہى اس كى ديكھ بھال كر سكتا ہو ” انتہى مختصرا
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 194 – 195 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
” جب بچى سات برس كى ہو جائے تو وہ اپنے باپ كے پاس رہے گى حتى كہ اس بچى كى شادى ہو جائے اور خاوند اسے اپنے ذمہ ميں لے جائے؛ كيونكہ اس كا باپ اس كى زيادہ حفاظت كرنے والا ہے، اور دوسرے سے اس كى ولايت كا زيادہ حقدار ہے.
اور كسى ممانعت كے نہ ہونے كى صورت ميں ماں كو اپنى بچى سے ملنے سے نہيں روكا جائيگا، اور اگر باپ بچيوں كى حفاظت سے عاجز ہو، يا پھر وہ اپنے كام كاج يا قلت دين كى بنا پر ان كى پرواہ نہ كرے تو اس كى ماں بچى كى حفاظت كر سكتى ہو تو وہ اپنى ماں كے پاس رہےگى ” انتہى
ماخوذ از: ويب سائٹ شيخ الفوزان.
پرورش كا مقصد بچے كى مصلحت ہے، اگر تو يہ مصلحت ماں پورى نہيں كر سكتى تو حق پرورش باپ كو منتقل ہو جائيگا… اور اسى طرح اگر باپ نہيں كر سكتا تو ماں كو منتقل ہو جائيگا.
ليكن والدين كو چاہيے كہ وہ بچے كى مصلحت كى خاطر ايك دوسرے سے تعاون كريں، تا كہ ان دونوں كا نزاع اور اختلاف بچے كے انحراف يا ضائع ہونے كا باعث نہ بنے.
مزيد آپ سوال نمبر (20705 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
اور پرورش كے متعلق جب تنازع ہو جائے تو اس معاملہ كو قاضى كے سامنے پيش كرنا چاہيے تا كہ وہ ان دونوں كے درميان فيصلہ كرے، يا پھر والدين كسى ايسے شخص پر متفق ہو جائيں جو عقل و خرد كا مالك ہو اور دين والا نيك و صالح ہو اور وہ بچے كى مصلحت كو مدنظر ركھتا ہوا فيصلہ كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات