اگر ميں طلاق كنايہ كے الفاظ بولوں اور شك ہو كہ آيا طلاق كى نيت تھى يا نہيں تو كيا حكم ہو گا ؟
مجھے بہت زيادہ نسيان اور وسوسہ كى بيمارى ہے كيا ميرا اپنے اقوال پر مؤاخذہ كيا جائيگا چاہے وہ نماز ميں ہو يا طلاق كے متعلق يا پھر كسى دوسرى عبادت ميں ؟
وسوسہ كے ہوتے ہوئے يا نيت ميں شك ہونے كى صورت ميں طلاق كنايہ كا حكم
سوال: 127627
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
طلاق كے الفاظ كى دو قسميں ہيں:
صريح الفاظ اور كنايہ كے الفاظ:
صريح الفاظ يہ ہيں جو طلاق اور اس سے مشتق ہوں، مثلا طالق و طلقتك يعنى طلاق والى ہو، يا ميں نے تجھے طلاق دى.
اور كنايہ كے الفاظ يہ ہيں كہ: جاؤ اپنے ميكے چلى جاؤ، يا مجھے تمہارى ضرورت نہيں، يا اللہ نے تجھے مجھ سے راحت دى.
پہلى قسم ( صريح ) الفاظ كے بولنے سے طلاق واقع ہو جاتى ہے چاہے طلاق كى نيت نہ بھى كى ہو.
ليكن دوسرى قسم ( كنايۃ ) سے جمہور علماء احناف اور شافعيہ اور حنابلہ كے ہاں نيت كے بغير طلاق واقع نہيں ہوتى، يا پھر كوئى قرينہ اس پر دلالت كرتا ہو مثلا غصہ كى حالت يا جھگڑا يا پھر بيوى كى جانب سے طلاق طلب كرنا، اس صورت ميں طلاق واقع ہو جائيگى چاہے اس نے نيت نہ بھى كى ہو، اور يہاں قريہ كو لينا حنفيہ اور حنابلہ كا مسلك ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 29 / 26 ).
اور جسے شك پيدا ہو جائے كہ آيا اس نے طلاق كى نيت كى تھى يا نہيں تو طلاق واقع نہيں ہوگى؛ كيونكہ اصل ميں عدم طلاق ہے.
دوم:
جو شخص اپنے اقوال يا اعتقاد ميں وسوسہ كى بيمارى كا شكار ہو تو طلاق وغيرہ ميں اس كا مؤاخذہ نہيں ہوگا، مثلا ايسا شخص جسے شك ہو كہ آيا اس نے اپنى بيوى كو طلاق دى ہے يا نہيں، يا پھر اس كا خيال ہو كہ اگر اس نے كوئى معين كلام كى يا كوئى معين چيز سوچى تو اس كى بيوى كو طلاق تو اس سے بيوى كو طلاق نہيں ہوگى.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 62839 ) اور سوال نمبر ( 83029 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب