اگر كوئى شخص كہے كہ داڑھى منڈوانا اور لباس چھوٹا پہننا چھلكا ہے دين كا اصول نہيں، يا جو كوئى ايسا عمل كرنے والے پر ہنسے تو اس كا شريعت ميں حكم كيا ہے ؟
دين ميں چھلكا نہيں
سوال: 12808
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
يہ كلام بہت خطرناك اور عظيم برائى ہے، كيونكہ دين ميں كوئى چيز بطور چھلكا نہيں بلكہ سارا دين ہى مغز اور گودا و اصل اور اصلاح ہے، جو فروع اور اصول ميں تقسيم ہے، اور داڑھى اور كپڑا ٹخنوں سے اوپر ركھنے كا مسئلہ فروع ميں سے ہے اصل نہيں.
ليكن امور دين ميں كوئى چھلكا نہيں، جو كوئى ايسى كلام كرتا ہے خدشہ ہے كہ وہ اس سے دين ميں نقص اور اسے مذاق و استھزاء كرنے كى بنا پر مرتد نہ ہو جائے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
كہہ ديجئے كيا تم اللہ تعالى اور اس كى آيات اور اس كے رسول كے ساتھ مذاق كرتے ہو، كوئى عذر پيش نہ كرو تم ايمان كے بعد كفر كا ارتكاب كر چكے ہو التوبۃ ( 65 – 66 ).
اور پھر داڑھى مكمل اور پورى ركھنے اور مونچھيں كاٹنے كا حكم تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ديا ہے اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور سب امور ميں ان كے حكم اور نہى كى تعظيم كرنى واجب ہے.
ابو محمد ابن حزم رحمہ اللہ نے داڑھى پورى اور مكمل ركھنے اور مونچھيں كاٹنے ميں اجماع ذكر كيا ہے كہ يہ معاملہ فرض ہے اور بلاشك و شبہ سعادت و خوشبختى اور عزت و تكريم اور بہتر انجام اور نجات تو اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت ميں ہے.
اور اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى نافرمانى ميں ہلاكت و تباہى اور نقصان ہى نقصان اور برا انجام ہے، اور اسى طرح لباس ٹخنوں سے اوپر ركھنا بھى فرض ہے كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” جو ٹخنوں سے نيچے لباس ہے وہ آگ ميں ہے ”
اسے امام بخارى نے صحيح بخارى ميں روايت كيا ہے.
اور ايك روايت ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تين قسم كے افراد كو روز قيامت نہ تو اللہ تعالى ديكھے گا اور نہ ہى انہيں پاك كريگا، اور ان كے ليے المناك عذاب ہے ايك تو ٹخنوں سے لباس نيچے ركھنے والا، اور دوسرا احسان جتلانے والا، اور جھوٹى قسم اٹھا كر اشياء فروخت كرنے والا ”
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.
اور ايك روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” تكبر كى بنا پر لباس كھينچ كر چلنے والے كو اللہ تعالى ديكھے گا بھى نہيں ”
متفق عليہ.
مسلمان مرد پر واجب ہے كہ وہ اللہ كا تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنا لباس ٹخنوں سے اونچا ركھے چاہے وہ قميص ہو يا تہ بند يا پائجامہ يا جبہ، لباس ٹخنوں سے نيچے نہيں ہونا چاہيے، بلكہ افضل تو يہ ہے كہ آدھى پنڈلى تك ہو.
اور اگر تكبر كى بنا پر لباس ٹخنوں سے نيچے ركھا جائے تو يہ اور بھى زيادہ گناہ ہے، ليكن اگر سستى كى بنا پر ہو تكبر كى وجہ سے نہيں تو يہ بھى برائى ہے صحيح قول كے مطابق ايسا كرنے والا گنہگار ہے، ليكن اس كا گناہ تكبر كرنے والے سے كم ہے.
بلاشك و شبہ ٹخنوں سے نيچے لباس ركھنا تكبر كا وسيلہ اور ذريعہ ہے چاہے ايسا كرنے والا تكبر كا گمان نہ كرتا ہو، اور اس ليے بھى كہ احاديث ميں وارد شدہ وعيد عام ہے اس ليے اس معاملہ ميں سستى سے كام لينا جائز نہيں.
رہا ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ كا قصہ اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ان كا يہ كہنا كہ: ميرى تہ بند نيچے ہو جاتى ہے اور ميں اس كا بہت خيال ركھتا ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:
” تو ان ميں سے نہيں جو يہ كام تكبر سے كرتے ہيں ”
تو يہ اس شخص كے متعلق ہے جس كى حالت ميں ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ جيسى ہو كہ تہ بند بغير كسى تكبر كے نيچے كھسك جائے ليكن وہ اسے اونچا ركھنے كا خيال ركھے اور بار بار اونچا كرتا رہے، ليكن وہ شخص جو جان بوجھ كر اپنا لباس ٹخنوں سے نيچے ركھے تو يہ وعيد اور سزا اس كو عام اور شامل ہو گى وہ ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح نہيں.
لباس ٹخنوں سے نيچا ركھنے ميں اوپر بيان كردہ وعيد اور سزا كے ساتھ ساتھ اسراف و فضول خرچى اور لباس گندگى اور نجاست ميں بھى پڑتا ہے، اور پھر اس ميں عورتوں كے ساتھ مشابہت بھى ہوتى ہے، اس ليے ہر مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ اپنے آپ كو اس سے محفوظ ركھے.
اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى توفيق دينے والا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز ( 6 / 323 )