ميرے والد رحمہ اللہ نے وصيت ميں لكھا ہے كہ ميرا نكاح پھوپھى كے بيٹے سے كيا جائے ليكن انہوں نے وصيت لكھنے سے قبل اس شخص كے متعلق ميرى رائے دريافت نہيں كي تھى؛ والد صاحب ميرى رائے معلوم كرنے سے قبل ہى بيمار رہ كر فوت ہو گئے.
اور اس شخص نے جب ميرے ساتھ اس موضوع پر بات كى تو ميں نے اسے صراحت سے كہا كہ ميرے اور تيرے درميان صرف اخوت و رشتہ دارى كے علاوہ كوئى اور احساس نہيں، تو كيا ميں شرعيت كى مخالف ہوں، يا پھر اگر ميں اس شخص سے شادى نہيں كرتى تو كيا يہ والد كى نافرمانى ہو گى ؟
يہ علم ميں رہے كہ ميرا دل كسى اور رشتہ دار كى طرف مائل ہے جو ميرا احترام بھى كرتا ہے اور ميرى قدر كرتا اور محبت كا دعوى دار ہے ؟
0 / 0
8,17326/06/2009
پھوپھى كے بيٹے سے شادى كرنے كى وصيت پورى كرنا
سوال: 128155
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
آپ كے ليے مذكورہ وصيت پر عمل كرنا لازم نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كنوارى كا نكاح اس سے اجازت ليے بغير نہ كيا جائے ”
اور ايك روايت ميں يہ لفظ ہيں:
” كنوارى سے اس كا والد اجازت لے اور اس كى اجازت اس كى خاموشى ہے ”
ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ سبحانہ و تعالى سے استخارہ كريں، اور اپنے رشتہ دار وغيرہ ميں سے جس پر مطمئن ہيں اس كے ساتھ اس شخص كے متعلق مشورہ بھى كريں، اللہ تعالى آپ كے ليے ہر قسم كى بھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے گا ” انتہى .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب