بعض لوگ كہتے ہيں كہ عورتيں ناقص العقل اور ناقص دين ہيں، اور وراثت و گواہى ميں بھى نقص ہے، اور بعض كا كہنا ہے: اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے درميان اجروثواب ميں برابرى كى ہے، اس سلسلہ ميں آپ كى رائے كيا ہے، آيا عورتيں شريعت اسلام كى رو سے ناقص ہيں يا نہيں ؟
كيا سزا اور اجروثواب ميں عورت و مرد برابر ہيں ؟
سوال: 12840
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
شريعت اسلاميہ نے عورت كى بہت عزت و تكريم كى ہے اور اس كا مقام و مرتبہ بڑھايا ہے، اور اسے اس كے شايان شان مقام اور جگہ عطا كى ہے، اور عورت كا بہت زيادہ خيال كيا، اور اس كى عزت كى حفاظت كى ہے.
اس ليے عورت كے ولى اور ذمہ دار اور اس كے خاوند پر عورت كا نان و نفقہ واجب كيا اور اس كى اچھى پرورش اور كفالت كا كہا ہے، اور اس كے امور كا خيال ركھنے، اور اس كے ساتھ حسن معاشرت كرنے كا حكم ديا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان كے ساتھ اچھے اور احسن طريقہ سے بود و باش اختيار كرو سورۃ النساء ( 19 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے اچھا ہے، اور ميں تم ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے سب سے بہتر ہوں "
سنن ترمذى ( 5 / 709 ) حديث نمبر ( 3895 ).
دين اسلام نے عورت كو وہ سب حقوق اور شرعى تصرفات ديے ہيں جو اس كے شايان شان اور مناسب ہيں.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان ( عورتوں ) كے ليے بھى ويسے ہى حقوق ہيں جيسے ان پر مردوں كے ہيں، اچھائى كے ساتھ، ہاں مردوں كو عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب ہے حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).
اسى طرح اسے مختلف معاملات جن ميں خريد و فروخت اور صلح و كالت، اور عاريت و امانت و وديعت …. الخ شامل ہيں بھى ديے ہيں.
اور عورت كو اس كے مناسب عبادات كا بھى مكلف بنايا ہے بالكل اسى طرح جس طرح مرد پر واجب ہيں جن ميں طہارت و پاكيزگى اور نماز روزہ اور حج وغيرہ دوسرى عبادات شامل ہيں.
ليكن شريعت اسلاميہ نے عورت كو وراثت ميں مرد سے نصف حصہ ديا ہے، كيونكہ عورت نہ تو اپنے خرچ كى مكلف ہے، اور نہ ہى گھر اور اپنى اولاد كے خرچ كى، بلكہ اس كا مكلف آدمى ہے اور اسى طرح مرد كو مختلف قسم كى مشكلات اور دوسرے خرچ مثلا مہمان نوازى، اور ديت اور اموال پر صلح وغيرہ كے امور بھى سرانجام دينا ہوتے ہيں.
اور ( الضيافۃ ) يہ وہ خرچ ہے جو آدمى اپنے مہمانوں پر كرتا ہے، اور ( العقل ) يہ ديت ہے، اور ( صلح على الاموال ) جس طرح كہ دو قبيلوں كے درميان لڑائى سے صلح اور ان كے درميان اختلافات كو ختم كرنے كے ليے مال كى ادائيگى پر صلح كرنا.
اسى طرح بعض مواقع پر دو عورتوں كى گواہى ايك مرد كے مساوى ہے، كيونكہ مرد كے مقابلہ ميں عورت كو نسيان اكثر ہوتا ہے اس كا سبب اس كى جبلت ہے، جس سے وہ دوچار رہتى ہے، مثلا ماہوارى، اور حمل اور وضع حمل، اور اولاد كى تربيت، يہ سب كچھ ايسے امور ہيں جو اس كے خيالات كو مشغول كر سكتے ہيں اور اسے ياد ركھنے والى اشياء كو بھلانے كا سبب بن سكتے ہيں، اسى ليے شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ گواہى ميں اس كے ساتھ شامل ہو تا كہ اس كے ليے زيادہ محفوظ ہو، اور ادائيگى كے ليے زيادہ بہتر.
اس كے علاوہ كچھ ايسے امور ہيں جو عورتوں كے ساتھ مخصوص ہيں جن ميں صرف ايك ہى عورت كى گواہى كافى ہے مثلا: رضاعت كى معرفت، اور نكاح كے عيوب وغيرہ.
ليكن ايمان و عمل صالح كے اجروثواب ميں عورت مرد كے مساوى ہے، اور دنيا ميں اچھى اور پاكيزہ زندگى سے فائدہ اٹھانے اور آخرت ميں اجرعظيم كے حصول ميں وہ مساوى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
جو كوئى مرد و عورت بھى عمل صالحہ كرے ليكن ہو وہ مومن تو ہم اسے اچھى اور پاكيزہ زندگى دينگے، اور جو وہ عمل كرتے رہے اس كا ہم انہيں بہتر اجر دينگے النحل ( 97 ).
اس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ عورت كے حقوق بھى ہيں، اور اس كے ذمہ واجبات بھى ہيں جن كى ادائيگى ضرورى ہے، اور كچھ امور ايسے ہيں جو مردوں كے مناسب ہيں جو اللہ تعالى نے مردوں كے ساتھ مخصوص كيے ہيں، اور اسى طرح كچھ ايسے امور بھى جو عورتوں كے ساتھ مخصوص ہيں، اور ان كے شايان شان اور لائق ہيں.
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب