تين طلاق والى مطلقہ عورت نے دوسرے شخص سے شادى كى اور دوسرے خاوند كے گھر ومنتقل ہوگئى اور دو ماہ تك اس كے ساتھ رہى، پھر اس نے اسے طلاق دے دى، اور جب اس عورت نے پہلے خاوند كے پاس جانے اور رجوع كرنے كا ارادہ كيا تو دوسرے خاوند نے دعوى كيا كہ اس نے اس عرصہ ميں اس سے جماع نہيں كيا، اور يہ عورت اسے ايسا نہيں كرنے ديتى تھى، تو كيا اس عورت كے ليے پہلے خاوند سے رجوع كرنا جائز ہے ؟
دوسرے خاوند نے جماع سے انكار كر ديا تا كہ پہلے خاوند كے پاس واپس نہ جا سكے
سوال: 128475
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مغنى اور شرح الكبير كے مؤلفين نے دونوں كتابوں كى آٹھويں جلد كے صفحہ ( 501 ) ميں بيان كيا ہے كہ:
اس سلسلہ ميں عورت كى بات قبول كى جائيگى، اور جب اس كا پہلا خاوند اس عورت كو نہ جھٹلائے تو وہ پہلے خاوند كے ليے حلال ہوگى، دونوں صاحب كتاب نے بيان كيا ہے كہ امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور انہوں نے ان كے علاوہ كسى اور سے اس ميں اختلاف ذكر نہيں كيا، اور يہى واضح ہے.
كيونكہ ظاہر اس عورت كے ساتھ ہے، اور مرد جماع سے انكار كرنے پر متہم ہے؛ كيونكہ اس كے كہنے كے مطابق عورت نے اس كے ساتھ حسن معاشرت نہيں كى، اس ليے اس عورت كو پہلے خاوند سے روكنے كے قصد سے دوسرے خاوند كو متہم كيا جائيگا.
اور اس ليے بھى كہ ظاہر يہى ہے كہ اس نے عورت كے ساتھ جماع كيا ہے؛ كيونكہ غالب يہى ہے كہ جب خاوند اپنى بيويوں كے ساتھ خلوت كرتے ہيں اور انہيں قدرت بھى حاصل ہوتى ہے تو پھر جماع كا حصول ہوتا ہے.
اور اس شخص كا انكار ظاہر كے خلاف ہے؛ اور اس ليے بھى كہ اس چيز كا علم تو ان دونوں سے ہى ہو سكتا ہے اور كسى دوسرے سے نہيں، اور عورت نے اس كا اعتراف كيا ہے كہ اس سے جماع ہوا ہے، اور اس كے اعتراف كو ختم كرنے والى كوئى چيز نہيں، اس ليے جب تك پہلا خاوند اسے نہيں جھٹلاتا اس عورت كى تصديق كرنا ضرورى ہے.
واللہ سبحانہ و تعالى اعلم.
اللہ تعالى سے ميرى دعا ہے كہ وہ سب كو دين كى سمجھ عطا فرمائے، اور دين پر ثابت قدم ركھے يقينا وہ سب سے بہتر ہے جس سے سوال كيا گيا ہے.
والسلام عليكم و رحمۃ اللہ و بركاتہ ” انتہى .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب