سوال: جبیل ٹرسٹ برائے خواتین کو قرآن مجید میں مذکور آٹھ مصارف زکاۃ کے مطابق مستحقین تک پہنچانے کیلئے زکاۃ کی رقوم موصول ہوتی ہیں، لیکن بسا اوقات ٹرسٹ کو مالی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو کیا اس ٹرسٹ میں ملازمت کرنے والی خواتین کو اس زکاۃ میں سے تنخواہ دی جا سکتی ہے، کہ وہ بھی ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کے ضمن میں شامل ہیں؟
ایک خیراتی ادارے کے ملازمین ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کی مد میں زکاۃ وصول کر سکتے ہیں؟
سوال: 128635
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا “سے مراد فرمان باری تعالی :
( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ )
ترجمہ: [التوبة:60] اور اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کر کے زکاۃ کے مستحقین میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے، چنانچہ اس ضمن میں محرر، اور منشی وغیرہ سب لوگ شامل ہیں ۔
نووی رحمہ اللہ “المجموع” (6/165) میں کہتے ہیں:
“شافعی اور ان کے شاگرد اس بات کے قائل ہیں کہ: اگر زکاۃ کا مالک خود ہی زکاۃ تقسیم کرے ، یا اس کی ذمہ داری زکاۃ تقسیم کرنے والے کی طرف لگائی گئی ہو تو اسے ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کی مد میں کچھ نہیں ملے گا، چنانچہ آٹھ میں سے بقیہ سات مصارف میں زکاۃ تقسیم ہوگی، اگر سب موجود نہ ہوں تو دستیاب مصارف میں زکاۃ تقسیم کی جائے گی” انتہی
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“زکاۃ جمع کرنے والے کارندو ں سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مامور کیا جائے، اور وہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں بھی زکاۃ ادا کرنے والے موجود ہوں ان کے پاس سفر کر کے جائیں اور ان سے زکاۃ وصول کریں، چنانچہ ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” میں وہ لوگ ہیں جو زکاۃ جمع کرتے ہیں یا زکاۃ کے محافظ ہیں یا اپنی نگرانی میں اسے تقسیم کرتے ہیں ، انہیں ان کے کام اور محنت کے مطابق حکمران کی صوابدید کے مطابق دیا جائے گا” انتہی مختصراً
“مجموع فتاوى ابن باز” (14/14)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں حکومت یا حکمران کا نائب زکاۃ جمع کر کے اسے تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپے، تو یہ لوگ ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کا مصداق بنیں گے، یعنی انہیں زکاۃ پر مامور کیا گیا ہے۔
لیکن اگر کوئی مالدار شخص کسی کو کہے: “یہ میری زکاۃ ہے اور غریبوں میں اسے تقسیم کر دو” تو یہ شخص زکاۃ ادا کرنے والے کا نائب ہے، زکاۃ پر مامور نہیں ہے” انتہی
“فتاوى نور على الدرب” (206/29)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا کسی خیراتی ادارے میں کام کرنے والے لوگوں کو زکاۃ کا مال دیا جائے گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
اگر حکومت کی طرف سے ان کی ذمہ داری لگائی جائے تو لے سکتے ہیں۔
سائل: خیراتی ادارے کے محاسب کو ملنے والی تنخواہ اس کیلئے کافی نہیں ہے؟
شیخ: جب تک حکومت کی طرف سے اس کی تعیین نہ ہو اس وقت تک ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا” کی مد میں زکاۃ نہیں لے سکتے، یہی وجہ ہے کہ اس میں حرف جر: “عليها” استعمال ہوا ہے، “فیھا” استعمال نہیں ہوا، یعنی انہیں اسی وقت دیا جائے گا جب انہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ پر مامور کیا جائے، وگرنہ انہیں ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کی مد میں کچھ نہیں ملے گا” انتہی
“لقاء الباب المفتوح” (141/13)
چنانچہ اگر کوئی خیراتی ادارہ اپنی طرف سے کچھ ملازمین کی اس کام پر ڈیوٹی لگائے تو ایسے لوگوں کو یا تو بغیر کسی معاوضے کے زکاۃ جمع کرنے کا کام کرنا چاہیے، یا پھر انہیں یہ ادارہ اپنی طرف سے تنخواہیں دے، چاہے وہ ادارے کو ملنے والے عام صدقات و عطیات میں سے ہو یا زکاۃ سے ہٹ کر دیگر ذرائع آمدن سے، چنانچہ انہیں ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کی مد میں کچھ نہیں ملے گا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“ہمیں فضیلۃ الشیخ سے ان سوالوں کے جوابات چاہییں ان کا تعلق شادی کیلئے قرض فراہم کرنے والی کمیٹی سے ہے، اس کمیٹی کو زکاۃ اور عام صدقات موصول ہوتے ہیں جنہیں عطیات کرنے والوں نے کسی مد کیلئے مخصوص نہیں کیا ہوتا، تو کیا ان رقوم کو کمیٹی کے ملازمین کی تنخواہوں اور کام کو جاری رکھنے کیلئے آنے والے دیگر اخراجات میں صرف کیا جا سکتا ہے؟”
تو انہوں نے جواب دیا:
“میرے نزدیک ان ملازمین میں ” وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا ” کی مد میں زکاۃ صرف نہیں کی جا سکتی؛ کیونکہ وہ ان میں شامل ہی نہیں ہیں، البتہ انہیں عام صدقات ، عطیات سے دیا جا سکتا ہے جس کا تعلق زکاۃ سے نہیں ہے” انتہی
“مجموع الفتاوى” (13/1577)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب