میں جب چھوٹا تھا اور ابتدائی تعلیم حاصل کر رہا تھا تو میں نے ایک دکان سے اور ایک رشتہ داری کی چور ی کی تھی، مجھے ان کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی بس بد بختی غالب آئی اور میں نے چوری کر لی، اب سوال یہ ہے کہ مجھے اس چوری کے ازالے کیلیے کیا کرنا چاہیے؟ یہ واضح رہے کہ میرے پاس اب وہ چوری شدہ چیز نہیں ہے۔
اگر کسی نے بلوغت سے پہلے چوری کی تو واپس کرنے پر ہی بری الذمہ ہوگا
سوال: 129779
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
پہلے سوال نمبر: (7833 ) پر بچوں کے ہاں چوری سے متعلق گفتگو کی گئی ہے، جس میں طریقۂِ علاج اور اسباب کا تذکرہ ہے۔
دوم:
اگر کوئی بچہ چوری کر لے یا کسی شخص کو جسمانی، مالی نقصان پہنچائے تو بچے کو گناہ نہیں ہوگا؛ کیونکہ وہ ابھی مکلف نہیں ہے، تاہم متاثر ہونے والے شخص کا حق ساقط نہیں ہوگا، بلکہ بچے کو نقصان کی تلافی لازمی طور پر کرنی پڑے گی۔
نووی رحمہ اللہ "المجموع" (7/37) میں کہتے ہیں کہ:
"ابن المنذر کہتے ہیں: بچوں کے جرائم کی تلافی انہیں کے مال سے لازمی طور پر ہوگی، اس بات پر اہل علم کا اجماع ہے" انتہی
یہی بات ابن قدامہ نے "المغنی" (3/108) میں کہی ہے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
"ایک شخص نے بچپن میں کئی لوگوں کا مال حرام طریقے سے ہڑپ کیا، بالغ ہونے کے بعد اس شخص نے اپنے بچپن کے تمام برے کاموں سے توبہ کر لی ہے اب وہ چاہتا ہے کہ چوری شدہ مال مالکان تک پہنچا دے، لیکن اسے اس کی مقدار معلوم نہیں ہے، تاہم اس نے مقدار کے بارے میں تخمینہ لگاتے ہوئے پوری کوشش کی ہے کہ کس کا حق نہ مارا جائے ، اسی طرح ان لوگوں میں ایک شخص ایسا بھی ہے جس کے نام اور رہائش کا علم نہیں ہے ، تو کیا اس کے چوری شدہ مال کو اسی کی طرف سے اللہ کی راہ میں صدقہ کر دے یا نہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"جن کے بارے میں علم ہے تو انہیں ان کا حق اپنے تخمینے اور اندازے کے مطابق واپس کر دے، یا ان سے معافی مانگ لے، لیکن جس شخص کے بارے میں علم نہیں ہے کہ وہ کون تھا اور کہاں ہے زندہ بھی ہے یا نہیں؟ اور اس کے ورثا کا بھی کوئی اتا پتا نہیں ہے ، تو پھر اسی کی طرف سے صدقہ کر دے، ساتھ میں سچے دل سے توبہ بھی کرے تو عین ممکن ہے کہ ایسا کرنے سے وہ شخص بری الذمہ ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ" انتہی
البتہ یہ کہنا کہ : چوری شدہ مال خرچ ہونے کی وجہ سے آپ کے پاس نہیں ہے تو ایسی صورت میں آپ پر یہ واجب بنتا ہے کہ اس کا مثل اسے دیں یا اس کی قیمت مالک تک پہنچائیں۔
اور اگر آپ مالک کو اب یہ چیزیں دیتے ہوئے حرج محسوس کریں تو آپ پر یہ چیزیں واپس کرتے ہوئے بتلانا واجب نہیں ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ ان تک ان کا حق پہنچ جائے، چاہے اس کیلیے کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جائے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے ایسے مال کے بارے میں پوچھا گیا کہ اگر اب وہ مال واپس کیا جائے گا تو اس سے منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے، تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"۔۔۔ اگر اصل مالکان کا علم ہو جائے تو ان تک ان کی چیزیں واپس کریں، چاہے اس کیلیے کوئی بھی طریقہ اپنانا پڑے، اور چاہے انہیں یہ بھی علم نہ ہو کہ یہ آپ کی طرف سے ہے ، آپ اس کیلیے کسی کے ہاتھ چوری شدہ سامان پہنچا سکتے ہیں ، اسی طرح بذریعہ ڈاک بھی یہ کام ہو سکتا ہے، چوری شدہ مال کو واپس نہ کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ چوری شدہ مال اصل مالکان تک پہنچایا جائے، مثال کے طور پر چوری شدہ مال کسی کے ہاتھ اصل مالکان تک پہنچائے اور سہولت کار کے ہاتھ یہ پیغام بھیج دے کہ یہ چیز آپ کی کسی کے پاس تھی اور اس نے مجھے آپ تک پہنچانے کا کہا ہے، الحمد للہ [اس طرح معاملہ سیدھا ہو جائے گا]" انتہی
مزید کیلیے سوال نمبر: (31234 ) کا مطالعہ کریں۔
اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو مزید رہنمائی اور ثابت قدمی سے نوازے۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات