اگر بيوى اپنے خاوند كے بچوں كو دودھ پلاتى ہو تو كيا وہ خاوند سے مالى معاوضہ طلب كر سكتى ہے ؟
كيا ماں اپنے خاوند سے بچوں كى رضاعت كى اجرت طلب كر سكتى ہے ؟
سوال: 130116
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
بعض علماء كہتے ہيں كہ اگر بيوى خاوند سے پيدا شدہ اپنے بچوں كو دودھ پلاتى ہو اور وہ رضاعت كى اجرت كا مطالبہ كرے تو خاوند پر اس كى ادائيگى واجب ہوگى، انہوں نے درج ذيل فرمان بارى تعالى سے استدلال كيا ہے:
اگر وہ تمہارے ليے دودھ پلائے تو تم انہيں ان كى اجرت دے دو الطلاق ( 6 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ المغنى ابن قدامہ ( 11 / 431 ) كا بھى مطالعہ ضرور كريں.
ليكن اس ميں صحيح بات يہى ہے كہ اگر بيوى اپنے خاوند كے نكاح ميں ہے تو پھر اس كے ليے بچوں كى رضاعت كا مالى معاوضہ طلب كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ تو اس پر واجب ہے، اس صورت ميں صرف اسے نان و نفقہ حاصل ہوگا كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور مائيں اپنى اولاد كو مكمل دو برس دودھ پلائيں، جو رضاعت پورا كرنا چاہتا ہے، اور بچے كے والد پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور لباس معروف طريقہ كے مطابق ہے البقرۃ ( 233 ).
ليكن اگر عورت خاوند كے نكاح ميں نہيں بلكہ مطلقہ ہے تو پھر وہ اپنے خاوند كى اولاد كو دودھ پلانے كى اجرت كا مطالبہ كر سكتى ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اگر وہ تمہارے ليے دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى اجرت دے دو، اور آپس ميں ايك دوسرے پر نيكى كرو الطلاق ( 6 ).
تو يہ آيت مطلقہ عورت كے بارہ ميں ہے، اور اس سے پہلى اوپر بيان كردہ آيت بيوى كے متعلق ہے.
امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا مذہب يہى ہے، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور معاصر علماء ميں سے شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے راجح قرار ديا ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ماں پر بچے كى رضاعت واجب ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ خاوند كے ساتھ نكاح ميں ہو، ابن ابوليلى وغيرہ سلف كا يہى قول ہے، اور وہ اس ميں نان و نفقہ اور لباس كے علاوہ زيادہ اجرت كى مستحق نہيں ہوگى، قاضى كا اختيار يہى ہے، اور امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ كا قول بھى يہى ہے.
كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
مائيں اپنى اولاد كو پورے دو برس تك دودھ پلائيں، يہ اس كے ليے ہے جو مدت رضاعت پورى كرنا چاہے، اور بچے كے والد پر ان عورتوں كا نان و نفقہ اور ان كا لباس معروف طريقہ كے مطابق ہے البقرۃ ( 233 ).
چنانچہ يہاں اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے ليے معروف طريقہ كے مطابق نان و نفقہ اور لباس كے علاوہ كچھ واجب نہيں كيا، اور يہ بھى زوجيت كى بنا پر واجب ہے، يا پھر دودھ پلانے والى كے ليے كوئى خاص زيادہ كى تجديد ہو جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حاملہ عورت كے متعلق ارشاد فرمايا:
اور اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تك ان پر خرچ كرو الطلاق ( 6 ).
چنانچہ بچے كا نفقہ بھى ماں كے نفقہ ميں داخل ہوگيا؛ كيونكہ حمل كى حالت ميں بچہ ماں كى خوراك سے ہى خوراك حاصل كرتا ہے، اور اسى طرح دودھ پينے والا بچہ بھى ماں كى خوراك سے ہى دودھ حاصل كرتا ہے، تو يہاں نفقہ دو چيزوں كى بنا پر واجب ہوگا حتى كہ اگر ايك كے ساقط ہونے واجب نہ بھى ہو تو دوسرى چيز سے واجب ہو جائيگا.
مثلا اگر عورت بددماغى كرے اور اطاعت نہ كرے اور دودھ پلا رہى ہو تو اسے رضاعت كى بنا پر نان و نفقہ ديا جائيگا زوجيت كى بنا پر نہيں، اور اگر وہ طلاق بائن حاصل كر چكى ہو اور بچے كو دودھ پلائے تو بلاشك و شبہ وہ اس كى اجرت كى حقدار ہے، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تو اگر وہ تمہارے ليے دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى اجرت دے دو الطلاق ( 6 ). انتہى
ديكھيں: الاختيارات ( 412 ـ 413 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" مؤلف كى كلام سے يہى ظاہر ہوتا ہے وہ اس كى اجرت و مزدورى ادا كريگا چاہے بچے كى ماں اس كے ساتھ ہو يا پھر وہ خاوند سے عليحدہ و بائن ہو چكى ہو، اگر ماں اپنے خاوند سے بچے كو دودھ پلانے كى اجرت طلب كرتى ہے چاہے وہ خاوند كے نكاح ميں بھى ہو تو اجرت ادا كريگا.
مؤلف كے درج ذيل قول سے ہم يہى اخذ كريں گے:
" اور باپ كے ذمہ ہے كہ وہ بچے كى رضاعت كا انتظام كرے "
يہاں مؤلف رحمہ اللہ نے مقيد نہيں كيا كہ بچے كى ماں بائن ہو تو پھر رضاعت كا انتظام كيا جائيگا، اس كى دليل درج ذيل فرمان بارى تعالى كا عموم ہے:
اگر وہ تمہارے ليے دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى اجرت دے دو الطلاق ( 6 ).
مشہور نے جو قول اختيار كيا ہے امام احمد كا مشہور مسلك بھى يہى ہے كہ ماں كو اجرت حاصل كرنے كا حق حاصل ہے.
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كا اختيار يہ ہے كہ:
" اگر بيوى اپنے خاوند كے نكاح ميں ہو تو اسے نفقہ كا ہى حق حاصل ہے، وہ اجرت و مزدوى طلب نہيں كر سكتى، اور شيخ نے جو كہا ہے وہ زيادہ صحيح و حق ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تو اگر وہ تمہارے ليے دودھ پلائيں تو تم انہيں ان كى مزدورى ادا كر دو الطلاق ( 6 ).
يہ مطلقہ عورت كے متعلق ہے، كيونكہ مطلقہ عورت خاوند كے ساتھ نہيں ہوتى، ليكن جو عورت خاوند كے ساتھ ہو اس كے بارہ ميں اللہ تعالى كا فرمان اس طرح ہے:
اور مائيں اپنى اولاد كو مكمل دو برس دودھ پلائيں جو مدت رضاعت پورى كرنا چاہتا ہے، اور جس كا بچہ ہے اس كے ذمہ ان عورتوں كا نان و نفقہ اور لباس معروف طريقہ كے مطابق ہے البقرۃ ( 233 ).
اگر آپ يہ كہيں كہ: اگر وہ بيوى ہے تو زوجيت كى بنا پر خاوند پر اس كانان و نفقہ اور لباس واجب ہوگا، چاہے دودھ پلائے يا نہ پلائے ؟
ہم كہيں گے كہ اس پر نان و نفقہ كے دو سبب ہونے ميں كوئى مانع نہيں، اس ليے اگر ايك سبب نہ ہو تود وسرے سبب كى بنا پر اسے نان و نفقہ و لباس حاصل ہوگا، لہذا اگر اس حالت ميں بيوى نافرمان ہو ت واسے زوجيت كى بنا پر نان و نفقہ حاصل نہيں ہوگا، بلكہ رضاعت كى وجہ سے نان و نفقہ حاصل ضرور ہوگا.
يہ تو معلوم ہے كہ اگر آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور سے لے كر آج تك لوگوں كے حالت كو بغور ديكھيں تو آپ كو كوئى ايسى عورت نظر ہى نہيں آئيگى جو اپنے بچے كو دودھ پلانے كى اجرت مانگتى ہو، اور قول بھى يہى صحيح ہے " انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع ( 13 / 515 ـ 516 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب