0 / 0
20,12927/12/2012

كيا بچے كو دو سال سے زائد دودھ پلانا جائز ہے ؟

سوال: 130155

ہميں علم ہے ك رضاعت كى مدت دو برس ہے؛ ليكن كيا بچے كو دو برس سے زائد دودھ پلانا ممكن ہے، اگر ايسا كرنا جائز ہے تو يہ بتائيں كہ دو سال كے بعد كتنا عرصہ اور دودھ پلايا جا سكتا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اللہ سبحانہ و تعالى نے مدت رضاعت يعنى دودھ پلانے كى مدت مكمل دو بر س مقرر كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اور مائيں اپنى اولاد كو مكمل دو برس دودھ پلائيں، اس كے ليے كہ جو چاہے دودھ كى مدت پورى كرے البقرۃ ( 233 ).

ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:

” ماؤں كے ليے اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے راہنمائى ہے كہ وہ اپنى اولاد كى رضاعت مكمل كريں اور دو برس تك دودھ پلائيں ” انتہى

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 633ـ 634 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان:

مكمل دو برس اس كے ليے جو مدت رضاعت مكمل كرنا چاہے .

رضاعت مكمل ہونے كى دليل ہے، اس عرصہ كے بعد خوراك ميں سے ايك خوراك ہى شمار ہوگى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 63 ).

اور مجلۃ بحوث الاسلاميہ ميں درج ذيل عبارت لكھى گئى ہے:

ميڈيكل سرچ سے يہ ثابت ہوچكا ہے كہ بچے كى عمر كے پہلے دو برس ميں رضاعت بچے كى نشو نما كا اكيلا سبب ہے، اور دو برس كے بعد اكيلى رضاعت بچے كى خوراك نہيں بنتى ” انتہى

ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 37 / 329 ).

ليكن دو برس كى عمر كے بعد دودھ پلانے ميں كوئى حرج نہيں؛ خاص كر جب دودھ پلانے ميں بچے كى مصلحت و منفعت اور فائدہ پايا جائے ” انتہى

اس ليے دو برس كے بعد دودھ پلاتے رہنے ميں كوئى حرج نہيں ”

قرطبى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

دو برس سے زائد يا كم دودھ پلانے كا انحصار بچے كے والدين كى رضامندى اور بچے كو نقصان دينے سے اجتاب كرنا ہے ” انتہى

تفسير القرطبى ( 3 / 162 ).

مستقبل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

” تو يہ معلوم ہوا كہ رضاعت ميں ہى بچے كى مصلحت و حق ہے، اور اگر بچے كو دودھ چھڑانے ميں ضرر و نقصان ہو تو دو برس سے قبل اسے دودھ چھڑانا جائز نہيں ہوگا، چنانچہ اگر مصلحت ہو اور بچے كو ضرر سے دور ركھنا مقصود ہو تو ماں كے ليے دو برس كے بعد بھى بچے كو دودھ پلانا جائز ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ اپنى كتاب ” تحفۃ المودود في احكام المولود ” ميں كہتے ہيں:

” ماں كے ليے بچے كو اڑھائى سال سے بھى زيادہ دودھ پلانا جائز ہے ” انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 21 / 60 ).

ڈاكٹر وہبہ الزحيل كى كتاب ” الفقہ الاسلامى و ادلتہ ” ميں درج ہے:

” بچہ كمزور ہونے كى بنا پر اگر دو برس كے بعد بھى بچے كوضرورت كى بنا پر دودھ پلانے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اس كے نتيجہ ميں حرمت وغيرہ كے احكام مرتب نہيں ہونگے، اور نہ ہى مطلقہ ماں اس كى اجرت حاصل كر سكتى ہے ” انتہى

ديكھيں: الفقہ الاسلامى و ادلتہ ( 10 / 36 ).

اور ” الجوھر النيرۃ ” ميں درج ہے:

” الذخيرۃ ” ميں رضاعت كى مدت كے تين اوقات درج ہيں: كم از كم، اور درميانہ اور زيادہ سے زيادہ.

كم از كم مدت ڈيڑھ برس ہے، اور درميانى مدت دو برس اور زيادہ سے زياد اڑھائى برس ہيں، اگر دو برس سے كم دودھ پلايا جائے تو يہ كوتاہى نہيں ہوگى، اور اگر دو برس سے زائد مدت گزر جائے تو يہ زيادتى نہيں ہوگى ” انتہى

ديكھيں: الجوھر النيرۃ ( 2 / 27 ).

اس بنا پر دو برس سے زائد دودھ پلانے ميں كوئى حرج والى بات نہيں، ليكن اس ميں بچے كى مصلحت مدنظر ركھى جائيگى.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android