كيا عورت پر اپنى ساس كى خدمت كرنا فرض ہے يا نہيں اور اس كا حكم كيا ہے، كيونكہ ہمارے گھر ميں اس سے مشكلات پيدا ہو رہى ہيں، اور بعض اوقات تو ميں طلاق حاصل كرنے كا سوچنے لگتا ہوں.
ميں نے ايك مولانا صاحب سے دريافت كيا تو انہوں نے كہا: تم اپنى بيوى اور والدہ كے مابين موافقت كى كوشش كرو يہ علم ميں رہے كہ بيوى يتيم ہے اور ميرے علاوہ اس كا كوئى اور نہيں ہے، ميرے اس سے بچے بھى ہيں.
ميرى والدہ زيادہ عمر كى نہيں ہے، الحمد للہ اس كى بيٹياں بھى ہيں جو گھر ميں اس كى خدمت كر سكتى ہيں، اب بيوى اور والدہ كے مابين موافقت كرانا مشكل اور مستحيل ہو چكا ہے، تو كيا ميرے ليے اپنا عليحدہ گھر بنانا جائز ہے كہ ميں اپنے بہن بھائيوں كو چھوڑ كر عليحدہ رہوں، برائے مہربانى بتائيں كہ اس سلسلہ ميں كيا حكم ہے ؟
كيا بيوى كے ليے ساس كى خدمت كرنا فرض ہے ؟
سوال: 130314
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
” عورت كا اپنے خاوند اور سسرال والوں كى خدمت كرنا ايسا معاملہ ہے جو علاقے اور ملك كے اعتبار سے مختلف ہے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوياں اپنے گھروں كى خدمت كيا كرتى تھيں.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ كى بيٹى فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا گھر ميں چكى پيستى اور آٹا گوندھ كر روٹى بھى پكاتى اور گھر كے دوسرے كام بھى كيا كرتى تھيں.
اس ليے عورت كو چاہيے كہ وہ خاوند كى بھى خدمت كرے اور گھر كے كام كاج بھى، اور اگر گھر ميں ساس يا پھر نند يا خاوند كى بيٹياں ہوں اور علاقے ميں ان كى خدمت كرنا عرف ميں شامل ہو تو ان كى خدمت كرنا مشروع ہے.
ليكن اگر علاقے يا خاندان يا پھر قبيلہ ميں خدمت كا رواج نہ ہو يعنى بيوى خدمت نہ كرتى ہو بلكہ اس كے ليے خادمہ ركھى جاتى ہو تو پھر يہ خدمت اس پر لازم نہيں، خاوند كو چاہيے كہ اگر استطاعت ركھتا ہے تو وہ خادمہ ركھے ليكن اگر بيوى خدمت كرنا چاہتى ہو اور بغير كسى جبر اور تنگى كے وہ خود ہى خدمت كرے تو يہ اچھى بات ہے اس سے گھر ميں اس كى محبت اور عزت ميں اضافہ ہوگا.
حاصل يہ ہوا كہ: علاقے اور ملك كے رواج اور عادت و عرف كے اعتبار سے يہ معاملہ مختلف ہوگا، جب مشقت و تكليف ہو تو خاوند كو چاہيے كہ وہ اس ميں كوئى اچھا اور بہتر اسلوب تلاش كرے، اور وہ جھگڑے كے وقت بيوى كو حسب استطاعت مال دے تا كہ وہ خوش ہو كر خدمت كرے اور اس كى بہنوں اور بيٹيوں اور ماں كى خدمت بجا لائے.
حسن كلام اور بہتر اسلوب اور مالى تعاون مشكلات كے خاتمہ اور عرف كى عادت كو بھى تبديل كر ديتا ہے اس طرح وہ گھر كے كام كاج خوشى سے كرنے لگےگى.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اور اگر وہ اپنى والدہ كو چھوڑ كر اپنے عليحدہ گھر ميں رہ سكتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر والدہ انكار كرے اور وہ اسے عليحدہ گھر ميں رہنے سے روكے كيونكہ وہ خدمت كى محتاج ہو يا كسى اور سبب كى بنا پر تو پھر نہيں جانا چاہيے.
كيونكہ والدہ كى رضامندى اور اس كى اطاعت اہم ہے، اور گھر ميں اس كے دوسرے بھائى ہو سكتا ہے وہ اس كے قائم مقام نہ بن سكتے ہوں اور وہ والدہ كى خدمت نہ كرتے ہوں، اور اس كى جگہ پر نہ كرتے ہوں.
اس ليے اسے اپنى والدہ كا خيال كرنا چاہيے اور اس سے مشورہ كرے، اگر تو وہ اجازت دے تو پھر عليحدہ اور مستقل گھر ميں رہنے ميں كوئى حرج نہيں.
ليكن اگر والدہ كو اس بيٹے كى ضرورت ہو، يا پھر كوئى اور سبب اسے عليحدہ گھر ميں رہنے كى اجازت نہ ديتا ہو تو بيٹے كو نہيں جانا چاہيے، بلكہ وہ صبر و تحمل سے كام ليتا ہوا والدہ اور بيوى كے مابين موافقت پيدا كرنے كى كوشش كرے، اور بيوى كو حسب استطاعت تحفہ اور ہديہ اور مال دے كر راضى كرے تا كہ مطلوبہ طريقہ سے معاملات چلتے رہيں، اور نہ تو وہ بيوى كو كھوئے اور نہ ہى والدہ كى ناراضگى مول لے.
اللہ سبحانہ و تعالى ہى مددگار ہے ” انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ.
ماخذ:
فتاوی سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز – فتاوی نور علی الدرب