كيا درج ذيل امور ميں موافقت حاصل ہونے كى نيت سے سورۃ الفاتحہ پڑھنى جائز ہے:
ـ كسى چيز ميں شركت كرنے كا اتفاق كرتے وقت.
ـ منگننى كرتے وقت.
تجارتى معاملات ميں.
باقى ہر قسم كے حالات ميں. ؟
منگنى يا شراكت وغيرہ ميں توفيق نصيب ہونے كى نيت سے سورۃ فاتحہ پڑھنے كا حكم
سوال: 130329
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
كسى معاملہ ميں شراكت يا منگنى كرتے وقت، يا پھر تجارتى معاملات وغيرہ كرتے وقت سورۃ الفاتحہ پڑھنى مشروع نہيں، بلكہ يہ ايك نئى ايك ايجاد كردہ بدعت ہے، اور سلف صالحين صحابہ كرام اور تابعين رحمہ اللہ كے دور ميں اس كا وجود نہيں ملتا، اور اگر يہ كوئى خير و بھلائى اور نيكى كا كام ہوتا تو وہ لوگ اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے.
مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
مرد و عورت كى منگنى يا عقد نكاح كے وقت سورۃ فاتحہ پڑھنى بدعت ہے ” انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 19 / 146 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
عقد نكاح كے وقت سورۃ فاتحہ پڑھنا كيسا ہے، حتى كہ اب تو بعض لوگ اس كو قرات فاتحہ كا نام دينے لگے ہيں، نہ كہ عقد نكاح، كہتے ہيں ميں نے فلاں عورت پر اپنى فاتحہ پڑھى كيا يہ مشروع ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
يہ مشروع نہيں، بلكہ بدعت ہے، اور پھر سورۃ فاتحہ يا دوسرى كوئى معين سورت تو اس جگہ ہى پڑھى جائيگى جہاں مشروع ہے، لہذا اگر كوئى شخص بطور عبادت كسى اور جگہ قرات كرتا ہے تو يہ بدعت شمار كى جائيگى.
ہم نے ديكھا ہے كہ اكثر لوگ ہر تقريب ميں سورۃ فاتحہ پڑھتے ہيں، حتى كہ ہم نے كچھ لوگوں كو يہ كہتے ہوئے سنا ہے كہ: ميت پر فاتحہ پڑھو، اور ايسے فاتحہ پڑھو اور اس پر فاتحہ پڑھو، يہ سب امور بدعت اور غلط ہيں.
كيونكہ سورۃ فاتحہ اور دوسرى سورتيں تو ہر حالت اور ہر جگہ اور ہر وقت نہيں پڑھى جا سكتيں، ليكن جب يہ كتاب اللہ اور سنت رسول سے مشروع اور ثابت ہو تو وہاں پڑھى جا سكتى ہے، وگرنہ يہ بدعت ہے، اور ايسا كرنے والے كو روكا جائيگا ” انتہى
ديكھيں: نور على الدرب ( 10 / 95 ).
شادى وغيرہ يا انسان جو دوسرے امور كرنا چاہتا ہے اس ميں مشروع تو يہ ہے كہ تجربہ كار افراد سے مشورہ كرے، اور پھر جب كوئى معاملہ پيش آ جائے تو اللہ سبحانہ و تعالى كے ساتھ استخارہ كرے، اور پھر جو كرنا چاہتا ہے اس عمل كو كرنے كا عزم كرے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب