اگر خاوند كو كھانا پسند نہ آئے تو كيا خاوند كے ليے بيوى كو ڈانٹنا صحيح ہے ؟
اور اس طرح كى حالت ميں خاوند كو كيا كرنا چاہيے ؟
اگر بيوى سے كھانا اچھا نہ پكے تو مسلمان كو چيخنا اور بيوى كو ڈانٹنا نہيں چاہيے
سوال: 130411
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ازدواجى زندگى محبت و پيار اور اتفاق پر قائم ہونى چاہيے، چنانچہ خاوند اپنى بيوى كے حقوق كى ادائيگى كرے اور بيوى كو چاہيے كہ وہ اپنے خاوند كے حقوق ادا كرے، اور پھر اگر كسى ايك سے كوئى غلطى اور كوتاہى ہو جائے تود وسرے كو معافى و درگزر سے كام لينا چاہيے، اس طرح وہ ايك اچھى اور بہتر زندگى گزار سكتے ہيں، اور آپس ميں سعادت و خوشى كے ايام بسر كريں گے اور ان كى اولاد بھى سعادت حاصل كرےگى.
صحيح مسلم ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” مومن شخص كسى مومنہ عورت سے ناراض نہيں ہوتا اگر اس كى كوئى بات ناپسند كرے تو اس كے كسى دوسرے اخلاق سے راضى ہو جائيگا ”
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1469 ).
شيخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى خاوند اور بيوى كے حسن معاشرت كے ليے يہ راہنمائى نيكى و حسن سلوك كے ساتھ رہنے كے ليے سب سے اعلى اور اچھا سبب ہے، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيوى كے ساتھ برا سلوك اختيار كرنے سے منع فرمايا ہے، كسى چيز سے روكنے كا معنى يہ ہے كہ اس كے ضد امر كيا جائے.
اسے حكم ديا گيا ہے كہ وہ ان كا خيال كرے جو بيوى ميں اخلاق جميلہ پائے جاتے ہيں، اور جو امور اس كے مناسب ہيں اس كى طرف دھيان دے، اور ان اشياء كو اس كے مقابلہ ميں ركھے جو بيوى كے اخلاق ميں برى چيز پائى جاتى ہے.
جب خاوند غور و فكر كرے كہ اس كى بيوى ميں كيا كيا اخلاق جميلہ پائے جاتے ہيں اور جن محاسن كو وہ پسند كرتا ہے اس ميں كتنے ہيں، اور اسے ڈانٹنے اور سوء معاشرت كے اسباب كى جانب نظر دوڑائے تو اسے ايك يا دو چيزيں ہى نظر آئيں گى، ليكن اس كے مقابلہ ميں جو وہ پسند كرتا ہے وہ بيوى ميں زيادہ ہونگى، اس ليے اگر وہ منصف ہے تو وہ اس كى اس غلطى سے صرف نظر كريگا كيونكہ يہ غلطى اس كى اچھائيوں ميں چھپ جاتى ہے.
اس طرح ان ميں حسن معاشرت قائم رہےگى اور وہ واجب اور مستحب حقوق كى ادائيگى كريگا، اور ہو سكتا ہے جسے وہ ناپسند كرتا ہے بيوى اسے تبديل كرنے يا صحيح كرنے كى كوشش كريگى ” انتہى
ديكھيں: بھجۃ قلوب الابرار ( 175 ).
كھانے كى وجہ سے چيخنا اور اس كے سبب سے مشكلات پيدا كرنا اور غصہ ہونا حسن معاشرت ميں شامل نہيں ہوتا اور پھر اس كے علاوہ وہ اس سلسلہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كى بھى مخالفت كر رہا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نيك و صالح نشانى سے بھى دور بھاگ رہا ہے جسے ايك مومن كو اپنا زيور اور شيوہ بنانا چاہيے.
امام بخارى اور امام مسلم رحمہما اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ:
” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھانے ميں كبھى بھى عيب نہيں نكالا، اگر چاہتے تو تناول فرما ليتے، اور اگر نہ چاہتے تو نہ كھاتے ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 3563 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2064 ).
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” يہ كھانے كے تاكيدى آداب ميں شامل ہوتا ہے، اور كھانے ميں عيب نكالنا مثلا نمك زيادہ ہے، نمك كم ہے، كڑوا ہے، پتلا ہے، سخت ہے، صحيح پكا نہيں كچا ہے وغيرہ كہنا صحيح نہيں ہے ” انتہى
اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” بعض علماء كہتے ہيں كہ اگر عيب خلقت ” يعنى اس كى پيدائش ) كے متعلق ہو تو مكروہ ہے، ليكن اگر بنانے كے اعتبار سے ہو تو اس عيب نكالنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اللہ تعالى كى بناوٹ ميں تو كوئى عيب نہيں نكالا جا سكتا، ليكن آدمى نے جو كچھ تيار كيا اور بنايا ہے اس ميں عيب نكالا جا سكتا ہے.
ميں كہتا ہوں: ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ عام ہے، كيونكہ عيب نكالنے ميں كھانا تيار كرنے والے كا دل ٹوٹ جاتا ہے ” انتہى
اس ليے اگر كسى كى بيوى كھانا تيار كرے اور اسے پسند نہ آئے يا پھر وہ كھانا نہ چاہے تو اسے اخلاق نبوى اختيار كرتے ہوئے عيب نہيں نكالنا چاہيے، اگر دل كرے تو كھانا كھا لے اور اگر نہ چاہے تو نہ كھائے، ليكن بيوى اور گھر والوں كو تنگ مت كرے اور نہ ہى چيخے اور چلائے اور كسى كو مت ڈانٹے.
اگر كھانا عيب دار ہو تو پھر بيوى كو نصيحت كرتے وقت نرم رويہ ميں سمجھائے اور اسے بتائے كہ كھانا ابھى اچھى طرح پكا نہيں تھا، يا پھر اس ميں نمك كچھ كم ہے، يا پھر كہے كہ كھانا تو بہت اچھا پكايا ہے ليكن اگر اس ميں تھوڑا نمك اور ڈال ليتى تو بہت اچھا تھا.
يا پھر يہ كہے كہ ميں اس طرح كا كھانا پسند نہيں كرنا كاش اگر تم ايسا كھانا يا اس طرح كا كھانا تيار كرتى، اور اس ميں اسے اچھا اور بہتر اسلوب اختيار كرنا چاہيے، اور طبيعت كو بھى ٹھنڈا ركھے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب