ميں نے سنا ہے كہ شادى كے وقت آدھا مہر ادا كرنا اور باقى مانندہ عند الطلب يا پھر طلاق كے وقت دينا جسے معجل اور غير معجل كا نام ديا جاتا ہے جائز نہيں، ہمارے علاقے ميں ہميشہ مہر ايسے ہى ادا كرنے كا رواج ہے، كيا يہ طريقہ مباح ہے يا نہيں يا شادى كے وقت يكبارگى ادا كرنا ضرورى ہے ؟
كيا كچھ مہرعقد نكاح كے وقت اور كچھ بعد ميں ادا كيا جا سكتا ہے ؟
سوال: 131069
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
مہر معجل اور غير معجل دونوں طرح ادا كرنا جائز ہے، اور يہ بھى جائز ہے كہ كچھ معجل ادا كر ديا جائے اور كچھ غير معجل ہو، جس پر خاوند اور بيوى متفق ہوں اس طرح ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" پورا مہر معجل اور غير معجل اور كچھ معجل اور كچھ غير معجل ادا كرنا جائز ہے؛ كيونكہ يہ معاوضہ ہے اس ليے باقى قيمت كى طرح يہ بھى جائز ہو گا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 169 ).
طويل عرصہ اور صديوں سے لوگ اسى پر عمل كر رہے ہيں اور يہى رواج ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صحابہ كرام مہر لكھا نہيں كرتے تھے؛ كيونكہ وہ شادى كے وقت ہى مہر ادا كر ديا كرتے تھے مہر مؤخر نہيں، اور اگر مؤخر كرتے تو يہ بھى معروف ہوتا، لہذا جب لوگ مہر مؤخر پر شادياں كرنے لگے اور طويل عرصہ تك مؤخر ہوتا تو يہ بھول جاتے اس ليے مہر مؤخر لكھا جانے لگا، اور يہ مہر كے ثبوت كے ليے ايك حجت و دليل بن گئى كہ وہ عورت اس كى بيوى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 131 ).
شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
كيا عقد نكاح يا مہر مقرر كرتے وقت عورت كے ليے اپنا مہر قبضہ ميں كرنا ضرورى ہے، يا كہ صرف مقرر كركے شادى كے بعد تك مہر مؤخر كرنا جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" اس ميں خاوند اور بيوى يا پھر خاوند اور بيوى كے ولى كے مابين جو اتفاق ہوا ہو اس پر عمل كيا جائيگا؛ مہر معجل يا غير معجل ميں سے وہ جس پر بھى متفق ہوں اس ميں كوئى حرج نہيں؛ الحمد للہ اس معاملہ ميں وسعت پائى جاتى ہے؛ اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں "
اور ايك روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا جو شرطيں وفا كاسب سے زيادہ حق ركھتى ہيں؛ وہ شرطيں ہيں جن سے تم شرمگاہيں حلال كرتے ہو "
اس ليے جب فريقين مہر معجل يا غير معجل يا پھر كچھ معجل اور كچھ غير معجل پر اتفاق ہو جائيں تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ ليكن سنت يہى ہے كہ عقد نكاح كے وقت كچھ مہر كا نام ليا جائے؛ اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:
تم اپنے مالوں كے ساتھ تلاش كرو اور چاہو .
چنانچہ مہر ميں سے كچھ نہ كچھ كا ذكر ضرور كرے، اگر كچھ ذكر كرتا ہے تو يہ بہتر ہے، اور اگر وہ مہر مؤخر يعنى بعد ميں ادا كرنے كا كہے اور آپس ميں مہر كا علم ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ يا پھر آدھا يا تيسرا يا چوتھا حصہ معجل اور باقى غير معجل و تو بھى كوئى حرج نہيں، الحمد للہ اس ميں وسعت پائى جاتى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 21 / 89، 90 ).
اور شيخ محمد بن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا عورت كا مہر مؤخر كيا جا سكتا ہے ؟ اور كيا يہ مرد كے ذمہ قرض ہے جس كى ادائيگى لازم ہوگى ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" مہر غير مؤجل يعنى مؤخر كرنا جائز ہے اس ميں كوئى حرج كى بات نہيں، چنانچہ جب مرد سارا مہر يا كچھ حصہ مؤخر ادا كرنے كى شرط ركھے تو كوئى حرج نہيں ہے، ليكن اگر اس كا وقت متعين كر ديا گيا تو پھر وقت آنے پر ادائيگى كرنا ہوگى، اور اگر وقت مقرر نہيں كيا گيا تو پھر طلاق يا فسخ نكاح كى صورت ميں عليحدگى ہو جانے يا موت واقع ہونے كى صورت ميں ادائيگى كرنا ہوگى.
مہر مؤخر خاوند كے ذمہ قرض ہے زندگى ميں وقت آنے پر اس كى ادائيگى لازم ہے، اور اسى طرح موت كى صورت ميں بھى سارے قرض كى طرح اس كى بھى ادائيگى كى جائيگى " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى و رسائل ابن عثيمين ( 13 / 1368 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب