ميرا ايك دودھ پيتا بچہ ہے، ہمارے پڑوس ميں نصرانى رہتے ہيں، بعض اوقات جب بچے كى ماں موجود نہ ہو تو پڑوسى كى نصرانى بيوى ميرے بچے كو آ كر دودھ پلا جاتى ہے اس رضاعت كا حكم كيا ہو گا، اور كيا اس نصرانى عورت كى اولاد ميرے بيٹے كے رضاعى بھائى ہونگے ؟
كيا كتابى عورت كى مسلمان بچے كور ضاعت سے حرمت ثابت ہو جائيگى ؟
سوال: 131463
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
رضاعت كے ليے مسلمان ہونا شرط نہيں؛ بلكہ اگر كوئى نصرانى يا يھودى عورت يا ہندو اور سكھ يا كسى اور دين سے تعلق ركھنے والى عورت بھى كسى مسلمان بچے كو پانچ رضعات ايك ہى مجلس يا كئى ايك مجلس ميں دودھ پلائيں تو وہ اس كى رضاعى ماں بن جائيگى.
ايك رضعہ يہ ہے كہ بچہ دودھ چوسنے لگے اور وہ دودھ اس كے پيٹ ميں چلا جائے پھر بچہ سانس لينے يا پھر پستان بدلنے كے ليے پستان كو چھوڑ دے تو يہ ايك رضعہ اور ايك بار كہلاتا ہے، اس طرح اگر پانچ رضعات ہوں تو اس سے حرمت ثابت ہو جائيگى.
اہم يہ ہے كہ پانچ رضعات بچے كى دو برس كى عمر تك ہوں تو اس سے حرمت ثابت ہو جائيگى؛ جيسا كہ حديث سے ثابت ہے، ( ليكن اگر ضرورت پيش آئے تو بڑى عمر ميں بھى رضاعت سے حرمت ثابت ہو جائيگى جيسا كہ حديث سالم سے ثابت ہے ) چاہے ايك مجلس ميں ہو يا پھر كئى ايك مجالس ميں يا كئى ايام ميں پانچ بار پيا ہو.
حديث ميں درج ہے كہ:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سھلۃ بنت سھيل كو حكم ديا تھا كہ و سالم كو پانچ رضعات دودھ پلا دے “
اور دوسرى صحيح حديث ميں ہے كہ:
” قرآن مجيد ميں دس معلوم رضعات نازل ہوئى تھيں، پھر انہيں پانچ معلوم رضعات كے ساتھ منسوخ كر ديا گيا، چنانچہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو معاملہ اسى پر تھا “
اسے امام مسلم نے صحيح مسلم اور امام ترمذى ميں جامع ترمذى ميں روايت كيا ہے، مندرجہ بالا الافظ ترمذى كے ہيں.
يہ دونوں اور اس معانى كى دوسرى احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ حرمت كے ليے پانچ يا اس سے زائد رضعات ضرورى ہيں، اور ايك دوسرى حديث ميں وارد ہے:
” رضاعت صرف دو برس كى عمر ميں ہے “
يہ اس بات كى دليل ہے كہ بچے كى عمر دو برس ہونا ضرورى ہے، ( ليكن ضرورت كى خاطر دو برس كے بعد بھى رضاعت ثابت ہو سكتى ہے ) اس ليے جب دونوں شرطيں پائى جائيں تو دودھ پلانے والى عورت بچے كى رضاعى ماں بن جائيگى چاہے وہ عورت كافرہ ہى كيوں نہ ہو، اور اس عورت كى اولاد دودھ پينے والے بچے كے رضاعى بہن بھائى بن جائينگے جيسا كہ مسلمان عورت كى رضاعت سے ثابت ہوتا ہے.
عام قاعدہ اور اصول يہى ہے كہ دو برس كى عمر كے بعد جو رضاعت بھى ہوگى وہ اثرانداز نہيں ہوگى اور اس سے حرمت ثابت نہيں ہوتى؛ جيسا كہ درج ذيل احاديث سے ثابت ہوتا ہے:
” رضاعت وہى ہے جس سے انتڑياں پھول جائيں اور دودھ چھڑانے كى عمر سے قبل ہو “
ايك حديث ميں ہے:
” رضاعت صرف دو برس كى عمر ميں ہى ہے “
يہ دونوں حديثيں صحيح ہيں، اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے انہوں نے فرمايا:
” رضاعت بھوك سے ہوتى ہے “
اس ليے عام يہى ثابت ہوا كہ رضاعت كے ليے دو برس كى عمر ہونا ضرورى ہے، يہى ثابت ہے اور جمہور علماء كرام بھى اسى كے قائل ہيں ” انتہى
فضيلۃ الشيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 3 / 1864 ).
ليكن اگر كوئى خاص سبب اور ضرورت ہو تو بڑى عمر ميں بھى رضاعت ثابت ہوگى جيسا كہ حديث ميں ملتا ہے كہ سالم كو جبكہ ان كى داڑھى بھى تھى دودھ پلايا گيا.
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال وجواب