قرض کا لین دین کرنے میں صحیح طریقہ کیا ہے ؟
جب میں کسی شخص کوقرض دوں اوراس پرکوئي گواہ نہ بناؤں تو کیا اس سے میں گنہگار ہونگا ؟
قرض کامعاھدہ لکھنا اوراس پرگواہی دینا
سوال: 13180
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
قرض کا لین کرنے میں صحیح طریقہ وہی ہے جو اللہ سبحانہ وتعالی نے سورۃ البقرۃ کی آیت دین میں کیا ہے :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پرقرض کا معاملہ کروتواسے لکھ لیا کرو اورلکھنے والوں کوچاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل وانصاف سے لکھے ، اورکاتب کوچاہیۓ کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالی نے اسے سکھایا ہے پس اسے بھی لکھ دینا چاہیے اورجس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اوراپنے اللہ تعالی سے ڈرے جواس کا رب ہے اورحق میں سے کچھ کمی نہ کرے ۔
ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہویا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تواس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے اوراپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو ، اگردومرد نہ ہوں تو ایک مرد اوردوعورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کرلو ، تا کہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے ، اورگواہوں کوچاہۓ یہ جب انہیں بلایا جائے توانکار نہ کریں اورقرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہویا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی وسستی نہ کرو ۔
اللہ تعالی کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اورشک وشبہ سے بھی زيادہ بچانے والی ہے ، ہاں یہ اوربات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جوآپس میں تم لین دین کررہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئي حرج نہیں ، خریدو فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو ، اور ( یاد رکھوکہ ) نہ تولکھنے والے کونقصان پہنچایا جائے اورنہ گواہ کو ، اوراگر تم یہ کرو تویہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے ، اللہ تعالی سے ڈرو اللہ تعالی تمہیں تعلیم رہا ہے اوراللہ تعالی ہرچيز کوخوب جاننے والا ہے ۔
اوراگر تم سفرمیں ہو اورلکھنے والا نہ پاؤ تورہن قبضہ میں رکھ لیا کرو ، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو توجسے امانت دی گئي ہے وہ اسے ادا کردے اوراللہ تعالی سے ڈرتا رہے جواس کا رب ہے ، اورگواہی کونہ چھپاؤ اورجواسے چھپا لے وہ گنہگار دل والا ہے ، اورجوکچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالی خوب جانتا ہے } البقرۃ ( 282 – 283 ) ۔
لھذا قرض کا لین دین کرنے میں صحیح طریقہ مندرجہ ذيل ہوگا :
1 – قرض کی مدت مقرر کرنا ، یعنی وہ مدت جس میں قرض کی واپسی ہوگي اسے مقرر کرنا چاہۓ ۔
2 – قرض کی مدت اورقرض لکھنا ۔
3 – اگر قرض لکھنے والا شخص قرض لینے والے کے علاوہ ہے تواس حالت میں قرض حاصل کرنے والا شخص لکھنے والے کوکتابت کے الفاظ خود لکھوائے گا یعنی املاء کروائے گا ۔
4 – اگر قرض لینے والے کسی بیماری یا کسی اورعذر کی بنا پر لکھوانے یعنی املاء کروانے کی استطاعت نہيں رکھتا تواس کا ولی املاء لکھوائے گا ۔
5 – قرض پرگواہ بنانا ، لھذا دومرد یا پھر ایک مرد اوردو عورتیں گواہی دیں گے ۔
6 – قرض دینے والے کے لیے قرض کی توثیق کے لیے قرض لینے والے سے رہن کا مطالبہ کرنا جائز ہے جسے وہ اپنے قبضہ میں رکھے گا ۔
اس رہن ( گروی ) کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب قرض کی ادائيگي کا وقت آئے اورقرض لینے والاادائيگي سے انکار کردے تورہن رکھی ہوئي چيز بیچ کرقرض کی رقم پوری کی جائے گي ، پھر اگر اس کی قیمت سے کچھ رقم بچ جائے تووہ مالک کولوٹائي جائے ۔
قرض کی توثیق ان تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوگی ( لکھ کر ، گواہ بنا کر، رہن رکھ کر ) یہ مستحب اورافضل طریقہ ہے نہ کہ واجب ، اوربعض علماء کرام توقرض کی کتابت کرنے کوواجب قرار دیتے ہیں ، لیکن اکثر علماء کرام اسے مستحب قرار دیتے ہیں اورراجح بھی یہی ہے کہ لکھنا مستحب ہے ۔
دیکھیں : تفسیر القرطبی ( 3 / 383 ) ۔
اس کی حکمت یہ ہے کہ : حقوق کی توثیق ہے تا کہ کثرت نسیان کی بنا پرحقوق ضائع نہ ہوجائيں ، اورمغالطے پیدا نہ ہوں ، اور ان خائن لوگوں سے بچنے کے لیے جواللہ تعالی کا ڈر اورتقوی اختیار نہيں کرتے اورخیانت کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
لھذا جب قرض نہ تولکھا جائے اورنہ ہی اس پر کوئي گواہ بنایا جائے اورنہ ہی کوئي چيز رہن رکھی جائے توآپ اس سے گنہگار نہیں ہونگے ، اورمندرجہ ذیل آيت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے :
ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو توجسے امانت دی گئي ہے وہ اسے ادا کردے اوراللہ تعالی سے ڈرتا رہے جواس کا رب ہے
اورامانت اس حالت میں ہوگي جب قرض کولکھنے یا گواہی یا رہن کے ساتھ توثیق نہ کی جائے ، لیکن اس حالت میں اللہ تعالی کا ڈر اورتقوی اوراس کے خوف کی ضرورت ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے اس حالت میں حکم دیا کہ جس پرحق ہو اسے اللہ تعالی سے ڈرنا چاہیے اورامانت واپس کرنی چاہیے اس کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :
توجسے امانت دی گئي ہے وہ اسے ادا کردے اوراللہ تعالی سے ڈرتا رہے جواس کا رب ہے
دیکھیں : تفسیر السعدی صفحہ نمبر ( 168 – 172 ) ۔
اورجب قرض نہ لکھا جائے اوربعد میں قرض لینے والا شخص ادائيگی سے انکار کردے یا ادا کرنے میں حیل حجت سے کام لے اوردیرکرے توپھر قرض دینے والا اپنے آپ کوہی ملامت کرے کسی اورکو نہیں کیونکہ اس نے خود ہی اپنے حق کوضائع کیا ہے اورلکھا نہیں ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے کہ جب قرض کولکھا نہ جائے اورقرض لینے والا ادائيگي سے انکار کردے یا اس میں حیل حجت کرے توقرض دینے والے کی اس کے خلاف کی گئي بددعا قبول نہیں ہوتی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( تین قسم کے اشخاص ہیں جواللہ تعالی کوپکارتے ہیں اوران کی پکار قبول نہيں ہوتی ۔۔۔ ان میں ایک شخص وہ ہے جس کا کسی دوسرے کے ذمہ مال ہواوراس پرگواہ نہ بنایا گياہو ) صحیح الجامع حدیث نمبر ( 3075 ) ۔
اورجوکوئي بھی ان تشریعات پرغوروفکرکرتا ہے وہ شریعت اسلامیہ کے کوکامل پاتا اوراسے علم ہوتا ہے کہ وہ مکمل ہے ، اوراسے یہ معلوم ہوگا کہ شریعت اسلامیہ نے حقوق کی حفاظت کس طرح کی ہے اورانہيں ضائع ہونے سے محفوظ رکھا ہے ، لھذا اللہ سبحانہ وتعالی مال والے کوحکم دیتا ہے کہ وہ اپنےمال کی حفاظت کرے اوراسے ضائع ہونے سے بچائے چاہے وہ جتنا بھی کم مقدار میں ہو فرمان باری تعالی ہے :
اورقرض کوجس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہویا بڑا لکھنے میں کاہلی اورسستی نہ کرو ۔
توکیا کوئي شریعت ایسی ہے جس نے دین ودینا کے مصالح اس طرح مکمل جمع کردیا ہو جس طرح کہ شریعت اسلامیہ نےان دونوں کے مابین جمع کیا ہے ؟ !
اورکیا یہ ممکن ہے کہ کوئي ان تشریعات سے بھی زيادہ کامل لاسکے ؟ !
اللہ سبحانہ وتعالی نے سچ فرمایا ہے کہ :
یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے اللہ تعالی سے بہتر حکم اورفیصلے کرنے والا کون ہوسکتا ہے ؟ المائدۃ ( 50 ) ۔
ہم اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں وہ موت تک اپنےدین پر ثابت قدم رکھے ۔
واللہ تعالی اعلم ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے ۔
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد