بيوى كى بنك ميں اپنى ملكيتى رقم تھى اور خاوند يہ مال اس سے حاصل كرنا چاہتا ہے خاوند نے بيوى كو كہا كہ اگر تم نے يہ رقم لى تو تمہيں تين طلاق ہوں، تو كيا اگر بيوى نے بنك سے مال نكلوايا يا اس نے مال خرچ كر ليا تو اسے طلاق ہو جائيگى ؟
بيوى نے خاوند كو مال دينے سے انكار كر ديا تو خاوند كہنے لگا كہ اگر تم نے يہ رقم بنك سے لى تو تمہيں تين طلاق
سوال: 132013
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
عورت كو بھى مرد كى طرح مالى ذمہ حاصل ہے كہ وہ اپنا مال ركھ سكتى ہے، اور اس كى رضا و خوشى كے بغير اس كا مال لينا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو تم آپس ميں ايك دوسرے كا مال باطل طريقہ سے مت كھاؤ النساء ( 29 ).
اور ايك جگہ فرمان بارى اس طرح ہے:
اور عورتوں كو ان كے مہر راضى و خوشى پورے دے دو اور اگر وہ اپنى طرف سے تمہيں مہر سے كچھ ہبہ كر ديں تو اسے راضى و خوشى كھاؤ النساء ( 4 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” كسى بھى شخص كا اس كى رضا و خوشى كے بغير مال حلال نہيں ہے ” اسے امام احمد نے مسند احمد نے حديث نمبر ( 20172 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 7662 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
اس ليے خاوند كو حق حاصل نہيں كہ وہ بيوى كو مجبور كرے كہ وہ اپنا مال خاوند يا كسى اور كے ليے خرچ كرے، چاہے يہ گھر كے اخراجات ميں ہى ہو، بيوى كو حق حاصل ہے كہ وہ ايسا نہ كرے.
دوم:
آدمى كا اپنى بيوى كو يہ كہنا كہ: اگر تم نے مال ليا تو تمہيں تين طلاق ”
يہ شرط پر معلق طلاق ہے، اور جمہور فقھاء كے ہاں حصول شرط كے وقت طلاق ہو جائيگى، اس ليے جب بيوى نے بن سے مال ليا تو اسے تين طلاق ہو جائينگى اور وہ اس سے بائن ہو جائيگى، اور خاوند كے ليے وہ بيوى اس وقت تك جائز نہيں جب تك وہ كسى دوسرے شخص سے شادى نہ كر لے.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں كہ ـ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا اختيار بھى يہى ہے اور راجح بھى يہى ہے ـ كہ اس ميں تفصيل پائى جاتى ہے، جو قائل كى نيت پر منحصر ہے، اگر تو اس نے اسے روكنے كے ليے ايسا كيا اور طلاق مقصد نہ تھا تو اس كا حكم قسم والا ہوگا، اگر عورت نے مال لے ليا تو اس كى قسم ٹوٹ جائيگى اور اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور طلاق واقع نہيں ہو گى.
اور اگر اس كا مقصد طلاق تھا تو شرط كے حصول كے وقت اس كى بيوى كو طلاق ہو جائيگى ليكن يہ طلاق ايك ہو گى؛ كيونكہ راجح قول كے مطابق ايك ہى وقت تين طلاقوں سے ايك طلاق واقع ہوتى ہے.
اور نيت كے معاملہ تو اللہ ہى جانتا ہے جس پر كوئى چيز خفيہ نہيں ہے، اس ليے مسلمان شخص كو اپنے رب پر حيلہ سازى سے اجتناب كرنا چاہيے، اور اپنے آپ كو دھوكہ دينے سے بچ كر رہنا چاہيے.
لہذا اگر خاوند نے بيوى كو طلاق دينے كا قصد كيا اور بيوى نے مال لے ليا تو اس كو ايك طلاق ہو جائيگى راجح قول يہى ہے، اور خاوند كو عدت كے دوران بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہے.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب