اسلام ميں جنگى قيديوں كے ساتھ كيا سلوك كيا جائيگا ؟
اسلام ميں قيديوں كے معاملات
سوال: 13241
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
دين اسلام عدل و انصاف اور رحمدلى كا دين ہے، اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں اللہ كے دين كى طرف بہتر اور اچھے انداز ميں دعوت دينے حكم ديا ہے، اور اس دين عظيم ميں لوگوں كو داخل ہونے كى ترغيب دلانے كا بھى حكم ديا ہے، ليكن اگر كچھ لوگ دين اسلام كو قبول نہ كرنے پر مصر ہوں، اور اس كے مقابلے ميں زمين ميں غير اللہ كا نظام نافذ كريں، اور دعوت الى اللہ كى مخالفت كرتے ہوئے اس كے خلاف اعلان جنگ كريں تو اس صورت ميں اللہ سبحانہ وتعالى نے ہميں حكم ديا ہے كہ ہم انہيں تين اشياء ميں سے كسى ايك كو اختيار كرنے كا كہيں:
يا تو وہ اسلام قبول كر كے دين اسلام ميں داخل ہو جائيں، ليكن اگر وہ ايسا كرنے سے انكار كريں تو پھر جزيہ دينا قبول كريں ( وہ اسطرح كہ مسلمانوں كى زمين ميں رہنے كے مقابلے ميں ہر برس كچھ معين مبلغ بطور جزيہ ادا كريں، اس كے بدلے ميں مسلمان ان كفار كى حفاظت كرينگے ) اور اگر وہ ايسا كرنے سے بھى انكار كريں تو پھر ان كے ليے صرف ايك راہ باقى رہتا ہے جو انہوں نے خود اپنے ليے اختيار كيا اور وہ جنگ اور قتال ہے، كہ جن لوگوں نے مسلمانوں كو اذيت سے دوچار كيا اور دين اسلام كى دعوت دينے ميں روڑے اٹكائے، اور مسلمانوں كى راہ كے پتھر بنے تو ان كى گردنوں پر تلوار يا دوسرا اسلحہ چلايا جائے، كيونكہ ايسا كرنے سے مسلمانوں كو عزت حاصل ہوگى، اور اللہ كے دشمن ذليل و رسوا ہونگے حتى كہ ميدان جنگ ميں انہيں قتل اور زخمى كر كے پھينكا جائيگا، اور پھر ہمارے ليے انہيں قيدى بنانے كا رجحان ہوگا اور ہم انہيں قيدى بنائيں گے ـ جسے مشكيں باندھنے سے تعبير كيا گيا ہے ـ ؛ كيونكہ يہ اس وقت اختيارى رحمت ہو گى، اور لڑائى ضرورت بن جائيگى جس كا اندازہ اس كے حساب سے لگايا جائيگا، اور اس سے خون بہانا مراد نہيں، اور نہ ہى انتقام لينے كى محبت مراد ہے.
تو جب مسلمان ان كفار پر غالب آجائينگے اور انہيں قيد كرنے والى جگہ كى طرف ہانك كر لے جايا جائيگا تو انہيں زدكوب كر كے يا بھوك يا پياس كے ساتھ يا دھوپ ميں پھينك كر يا سردى ميں چھوڑ كر يا انہيں آگ سے جلا كر اذيت و تكليف دينا صحيح نہيں، يا ان كے منہ يا كان يا آنكھيں، يا انہيں داغ لگا كر تكليف دينى نہيں چاہيے، يا انہيں جانوروں كى طرح پنجروں ميں بھى نہيں بند كرنا چاہيے، بلكہ ان كے ساتھ نرمى و شفقت كا برتاؤ كرتے ہوئے ان كے سامنے كھانا ركھا جائے، اور انہيں دين اسلام قبول كرنے كى ترغيب دى جائے.
ديكھيں يہ ثمامہ بن اثال ـ جو كہ بنو حنيفہ كے سردار ہيں ـ كو قيدى بنا كر لايا جاتا ہے اور مسجد نبوى كے ايك ستون كے ساتھ باندھ ديا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كے پاس تشريف لائے اور فرمايا:
اے ثمامہ تمہارے پاس كيا ہے ؟
تو اس نے جواب ديا: اے محمد ميرے پاس خير ہى خير ہے، اگر تو قتل كروگے تو ايك خون والے شخص كو قتل كروگے ـ يعنى ميں قتل كا مستحق ہوں كيونكہ ميں نے مسلمانوں كو قتل كيا ہے ـ اور اگر مجھ پر احسان و انعام كرو گے تو تم ايك شكر گزار بندے پر احسان كروگے، اور اگر آپ مال حاصل كرنا چاہتے ہيں تو جتنا مال مانگو كے اتنا ہى ديا جائيگا.
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے تين دن تك چھوڑے ركھا اور ہر روز آكر اس اسى طرح كے سوال كرتے، اور ثمامہ وہى جوابات ديتا رہا اور تيسرے دن كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے چھوڑنے كا حكم دے ديا، تو ثمامہ مسجد كے قريب ہى ايك نخلستان ميں گيا اور وہاں جا كر غسل كرنے كے بعد نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس واپس آگيا اور كلمہ شہادت پڑھتے ہوئے كہنے لگا:
ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں اور ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ كے بندے اور اس كے رسول ہيں، پھر عرض كرنے لگا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم:
اللہ كى قسم روئے زمين پر ميرے ليے آپ كے چہرے سے مبغوض ترين چہرہ كوئى اور نہيں تھا، ليكن اب آپ كا چہرہ ميرے ليے محبوب ترين بن گيا ہے، اور اللہ كى قسم ميرے نزديك آپ كا دين مبغوض ترين تھا ليكن اب يہ دين ميرے ليے سب سے اچھا اور محبوب بن گيا ہے، اللہ كى قسم آپ كے شہر سے زيادہ مجھے كسى اور شہر سے بغض نہيں تھا، ليكن اب مجھے آپ كے شہر سے سب سے زيادہ محبت ہے.
آپ كے گھڑ سواروں نے مجھے پكڑ ليا تھا ميرا تو ارادہ عمرہ كى ادائيگى كا تھا، اب آپ بتائيں مجھے كيا كرنا چاہيے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے بشارت ديتے ہوئے عمرہ كى ادائيگى كا حكم ديا، جب ثمامہ مكہ پہنچتے ہيں تو اسے كسى نے كہا:
تم بے دين ہو گئے ہو ؟
تو ثمامہ رضى اللہ تعالى عنہ نے جواب ديا: نہيں ميں بے دين تو نہيں ہوا، بلكہ ميں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر ايمان لا كر مسلمان ہو گيا ہوں، اللہ كى قسم تمہارے پاس يمامہ سے گندم كا ايك دانہ بھى نہيں آ سكتا حتى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كى اجازت نہ دے ديں.
اللہ تعالى آپ پر رحم و كرم كرے ذرا اس قصہ پر غور تو كريں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نرم اور رحمدل معاملہ نے ثمامہ رضى اللہ تعالى عنہ پر كتنا اثر كيا كہ اسے اسلام قبول كرنے پر مجبور كر ديا، اگر اللہ تعالى كى توفيق اور ثمامہ رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ يہ نرم اور رحمدلانہ معاملہ نہ ہوتا تو ايسا نہيں ہو سكتا تھا.
كيا اللہ سبحانہ وتعالى نے ابرار اور نيك قسم كے لوگوں كے متعلق يہ نہيں فرمايا كہ:
اور وہ اللہ تعالى كى محبت ميں مسكينوں اور يتيموں اور قيديوں كو كھانا كھلاتے ہيں، ہم تو انہيں اللہ تعالى كى رضامندى كے ليے كھانا كھلاتے ہيں، نہ تو ہم تم سے كوئى بدلہ چاہتے ہيں، اور نہ ہى كوئى شكر گزارى .
ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابن عباس رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ: ان دنوں ان كے قيدى مشرك تھے، اور اس كى شہادت يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بدر والے دن اپنے صحابہ كرام كو حكم ديا تھا كہ وہ قيديوں كى عزت و تكريم كريں، تو وہ كھانے كے وقت پہلے قيديوں كو كھانے پيش كرتے تھے … مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں: وہ محبوس شخص ہے: يعنى وہ انہيں كھانا فراہم كرتے حالانكہ خود انہيں بھوك لگى ہوتى اور وہ كھانا پسند كرتے تھے. انتہى.
قيديوں كو باندھ كر ركھنے كا حكم:
يہ تو معلوم ہى ہے كہ اگر قيديوں كو فرار ہونے كا موقع ملے تو وہ بھاگنے ميں كوئى تردد نہيں كرتے، كيونكہ ہو سكتا ہے انہيں اپنے انجام كا خطرہ ہو، اور انہيں يہ معلوم نہيں ہوتا كہ ان كے ساتھ كيا سلوك كيا جائيگا، اسى ليے مسلمانوں كو حكم ديا گيا ہے كہ وہ قيديوں كو باندھ كر ركھيں، اور ان كے دونوں ہاتھ گردن كے ساتھ باندھ ديے جائيں، تا كہ وہ فرار نہ ہو سكيں، اور يہ حكم اب تك جارى و سارى ہے اور سب لوگوں كے ہاں معروف بھى ہے.
ظاہر يہ ہوتا ہے كہ قيديوں كو باندھنے ميں حكمت يہ ہے كہ اس طرح دشمن كى طاقت توڑى جائے، اور انہيں ميدان جہاد سے دور كر كے ان كا شر دور كيا جائے تاكہ اس كى فاعليت اور اذيت كو روكا جا سكے، اور اس پر مستزاد يہ كہ مسلمان قيديوں كو چھڑانے كے اسباب متوفر ہوں كہ ان كے قيدى دے كر اپنے مسلمان قيدى ليے جائيں.
قيديوں كو محبوس كرنا:
قيديوں كو محبوس كرنا ايك سياست ہے تا كہ صحيح اور زيادہ اصلاح والا كام واضح ہو جائے: اس ليے امام المسلمين كو حق حاصل ہے كہ وہ قيديوں كو محبوس اور قيد كر كے ركھے حتى كہ ان كے بارہ ميں ديكھا جائے كہ كيا چيز زيادہ بہتر اور مصلحت كس ميں ہے، يا تو ان كے بدلے فديہ اور مال قبول كيا جائے، يا پھر ان كے ساتھ مسلمان قيديوں كا تبادلہ كيا جائے، يا پھر بغير كسى فديہ وغيرہ كے بطور احسان انہيں چھوڑ ديا جائے، يا مسلمانوں ميں بطور غلام اور قيدى بنا كر انہيں تقسيم كر ديا جائے، يا ان كے مرد قتل كر ديے جائيں اور عورتوں اور بچوں كو قتل نہ كيا جائے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں قتل كرنے سے منع فرمايا ہے.
قيدى كو محبوس كرنے ميں زيادہ سے زيادہ احتراز اور تحفظ ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قيديوں كے ساتھ حسن سلوك كرنے كا حكم ديا ہے، حالانكہ رومى اور ان سے پہلى سلطنت والے آشورى اور فراعنہ قيديوں كى آنكھوں ميں سلاياں گرم كر كے لگاتے تھے ( يعنى ان كى آنكھيں نكلوا ديا كرتے اور آنكھوں ميں گرم سلايا ڈالتے تھے ) اور قيديوں كى چمڑى ادھيڑ كر اتار ديتے، اور انہيں كتوں كے سامنے ڈالتے تھے، حتى كہ قيدى لوگ زندگى پر موت كو ترجيح ديا كرتے تھے.
ديكھيں: احكام السجن و معاملۃ السجناء فى الاسلام تاليف ابو غدۃ صفحہ نمبر ( 256 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الشیخ محمد صالح المنجد