مطلقہ عورت كى عدت سے بيوہ كى عدت زيادہ ہونے ميں كيا حكمت پائى جاتى ہے ؟
طلاق كى عدت سے خاوند فوت ہونے كى عدت زيادہ ہونے ميں حكمت
سوال: 132479
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اللہ سبحانہ و تعالى نے مطلقہ اور بيوہ عورت كے ليے عدت فرض كرتے ہوئے فرمايا ہے:
اور طلاق يافتہ عورتيں تين حيض تك اپنے آپ كو روكے ركھيں البقرۃ ( 228 ).
اور فرمان بارى تعالى ہے:
اور تم ميں سے جو لوگ فوت ہو جائيں اور اپنى بيوياں چھوڑ جائيں تو وہ بيوياں چار ماہ دس دن تك انتظار كريں البقرۃ ( 234 ).
اگر مسلمان شخص كو حكمت معلوم نہ بھى ہو تو بھى مسلمان شخص پر سمع و اطاعت واجب ہے، اور اسے وحى كى نصوص اور احكام شرعيہ كو تسيلم كرنا چاہيے .
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
تيرے رب كى قسم يہ لوگ اس وقت تك مومن ہى نہيں ہو سكتے حتى كہ وہ آپس كے اختلافات ميں آپ كو حاكم نہ مان ليں، اور پھر آپ ان ميں جو فيصلہ كريں وہ اس كے متعلق اپنے دل ميں كوئى تنگى محسوس نہ كرتے ہوں، اور اسے پورى طرح تسليم كريں تسليم كرنا النساء ( 65 ).
اور ايك مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:
جب ايمان والے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف بلائے جائيں تا كہ وہ ان كے درميان فيصلہ كرے ان كى بات يہى ہوتى ہے كہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت كى اور يہى لوگ فلاح پانے والے ہيں النور ( 51 ).
اور ايك مقام پر اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور كبھى بھى نہ كسى مومن مرد كا حق ہے اور نہ كسى مومن عورت كا كہ جب اللہ تعالى اور اس كا رسول صلى اللہ عليہ وسلم كسى معاملے كا فيصلے كر ديں كہ ان كے ليے ان كے معاملے ميں كوئى اختيار باقى ہو، اور جو كوئى اللہ اور اس رسول كى نافرمانى كريگا تو وہ يقينا گمراہ ہوگيا اور واضح گمراہ ہونا الاحزاب ( 36 ).
اور يہ احكام كى علت بيان كرنے سے منع نہيں كرتا، اہل علم حضرات نے عدت كى كئى ايك علتيں بيان كى ہيں جو درج ذيل ہيں ان علتوں كو بيان كرنے ميں يہاں كوئى مانع نہيں اس ليے ہم چند ايك علتيں ذيل ميں بيان كرنے كى كوشش كرتے ہيں:
1 ـ اللہ سبحانہ و تعالى كے حكم پر عمل كر كے اللہ كى عبادت ہوگى، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے مومن عورتوں كو عدت گزارنے كا حكم ديا ہے.
2 ـ اس عدت سے استبراء رحم ہو جاتا ہے اور يہ علم ہو جاتا ہے كہ حمل نہيں؛ تا كہ نسب ميں اختلاط نہ ہو جائے.
3 ـ طلاق ميں خاوند اور بيوى كو آپس ميں رجوع كے ذريعہ ازدواجى زندگى ميں واپس آنے كا موقع فراہم كرنا.
4 ـ نكاح جيسے عظيم معاملہ كى عظمت اور اہم ہونا كيونكہ طلاق كے ليے ايك طويل مدت اور عرصہ كا انتظار كرنا پڑتا ہے، اگر ايسا نہ ہوتا يعنى عدت نہ ہوتى تو يہ بچوں كے كھيل كى جگہ لے ليتا كہ نكاح ہوتا اور ايك ہى لمحہ ميں نكاح ختم بھى ہو جاتا.
5 ـ خاوند كى فضيلت و احسان كا اعتراف كرتے ہوئے خاوند كى وفات كے بعد غم و پريشانى كا اظہار.
بيوہ كى عدت ميں درج ذيل اشياء كا اضافہ ہوگا:
ـ جب خاوند فوت ہونے ميں فراق عظيم تھا تو اس سے وفائى كى مدت بھى طويل ٹھرى.
ـ بيوہ كى عدت ميں اتنى مدت ركھى گئى ہے جس ميں بچہ پيٹ ميں واضح حركت كرنے لگتا ہے، تا كہ نسب كى حفاظت ہو سكے، طلاق ميں تو اتنى مدت ركھى گئى جس سے برات رحم ہو جو كہ ظنى دلالت تھى؛ كيونكہ طلاق دينے والا شخص اپنى طلاق يافتہ بيوى كى حالت طہر اور حيض سے معلوم كر سكتا ہے، اور اسے طلاق سے قبل بھى اس كے قريب جانے كى حالت كا علم ہے؛ ليكن ميت كے ليے ايسا نہيں؛ اس ليے چار ماہ سے دس دن زائد اس ليے كئے گئے تا كہ بچہ ميں جو حركت ہو وہ واضح معلوم ہو جائے؛ كيونكہ بچہ كمزور يا طاقت وار ہونے كے اعتبار سے حركت ميں بھى تاخير يا جلدى ہو سكتى ہے.
ـ فوتگى كى بنا پر حاصل ہونے والى پريشانى و غم بہت عظيم اور زيادہ ہوتى ہے جو تين مہينوں سے بھى زائد پر محيط ہے، اگرچہ اس مدت ميں رحم كى برات تو ہو جاتى ہے؛ ليكن غم و پريشانى اور تكليف سے برى ہونے كے ليے تو اس سے بھى زيادہ مدت اور عرصہ دركار ہے.
ـ اگر بيوہ خاوند ہونے كے بعد اپنى شادى جلدى كر لے تو خاوند كے خاندان والوں كو برا لگےگا اور وہ اس عورت كے متعلق مختلف قسم كى سوچيں سوچنے لگيں گے كہيں اس عورت نے ہى تو ان كے بيٹے كو كچھ نہيں كر ديا تھا، اور وہ كہيں دوسرى جگہ شادى كرنا چاہتى تھى، اس ليے خاوند سے وفادارى اور اس پر غم بھى اتنى طويل عدت ميں ہى ہے.
ـ اگر مطلقہ عورت كو بچہ پيدا ہو جائے تو طلاق دينے والے شخص كے ليے لعان كر كے اس بچے كى نفى كرنا اور اس عورت كو جھوٹا كہنا ممكن ہے، ليكن ميت كے متعلق ايسا نہيں ہو سكتا، ہو سكتا ہے اس بيوہ عورت كا بچہ پيدا ہو اور وہ اس كى نسبت ميت كى طرف كر دے، اس ليے بيوہ كے ليے احتياطا اتنى طويل عدت ركھى گئى ہے.
پھر دوسرى بات يہ بھى ہے كہ جاہليت ميں تو بيوہ عورت اس سے بھى زيادہ عرصہ بيٹھى رہتى اور عدت گزارتى تھى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” چار ماہ دس دن كى عدت ميں حكمت يہ ہے كہ يہ پہلے خاوند كے حق كى حفاظت ہے، اسى ليے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا حق بہت عظيم تھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تمام بيوياں سارى زندگى امت كے ليے حرام ٹھريں، ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے علاوہ باقى دوسروں كے ليے چار ماہ دس دن كافى ہيں. واللہ اعلم.
سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ عدت چار ماہ دس دن كيوں ركھى گئى ہے ؟
جواب يہ ہے كہ:
چارہ ماہ سال كا ايك تہائى ہے، اور دس دن مہينہ كا ايك تہائى بنتے ہيں، حديث ميں وارد ہے:
” ايك تہائى، اور ايك تہائى بہت زيادہ ہے ”
دور جاہليت ميں عورتيں گندے ترين گھر ميں ايك برس تك عدت بسر كرتى تھيں، اس كے ليے گھر كے ايك كونے ميں چھوٹا سا خيمہ لگا ديا جاتا جس ميں وہ دن رات بيٹھى رہتى، نہ تو غسل كرتى اور نہ ہى جسم كى صفائى، ايك برس تك ايسے ہى رہتى تھى، گرمى و سردى ايسے ہى گزر جاتى.
جب سال بعد باہر نكلتى تو وہ ايك چڑيا يا مرغى لا كر اس كے سامنے ركھتے تو وہ اس پر ہاتھ پھيرتى اس كے بعد وہ عدت والى گندى اور بدبودار تعفن والى جگہ سے باہر نكلتى تھى، اور وہ زمين سے مينگنى اٹھا كر پيھنك ديتى، گويا كہ زبان حال سے يہ كہہ رہى ہوتى:
ميرے ليے اس عرصہ ميں جو تنگى اور مصيبت آئى وہ اس مينگنى كے برابر تھى!
ليكن الحمد للہ دين اسلام نے اس طويل اور لمبى مدت كى بجائے تھوڑى سى مدت عدت مرقرر كرتے ہوئے چارہ ماہ دس دن ركھے.
پھر كيا دين اسلام نے اسے صفائى ستھرائى كرنے سے روكا ہے يا نہيں ؟
نہيں عورت كو اس عرصہ ميں صفائى ستھرائى سے منع نہيں كيا، جس طرح چاہے صفائى كرے؛ اور جو چاہے لباس زيب تن كرے؛ صرف اسے خوبصورتى اختيار كرنے سے منع كيا گيا ہے اور بےپردگى مت كرے ” انتہى
ديكھيں: الشرح الممتع على زاد المستقنع ( 13 / 348 ـ 349 ).
مزيدمعلومات كے ليے آپ المغنى ( 11 / 224 ) اور المجموع ( 19 / 433 ) اور التحرير و التنوير ابن عاشور ( 2 / 421 ـ 422 ) اور تفسير المنار ( 2 / 416 ـ 417 ) اور روائع البيان في تفسير آيات الاحكام ( 1 / 343 ) كا مطالعہ ضرور كريں.
مزيد تفصيلات كے ليے آپ سوال نمبر (81139 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات